• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

مشترکہ پیسوں کی زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

فقہ کی کتب میں مصارف زکوٰۃ کے حوالے سے یہ بات مذکورہے کہ وہ مسکین یا فقیر جو نصاب کا مالک نہ ہو وہ زکوٰۃ لے سکتا ہے اور جو صاحب نصاب ہو اس کیلئے زکوٰۃ لینا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر زکوٰۃ  ادا کرنا واجب ہے ۔تو کیا اس نصاب کا اعتبار پورے گھرانے میں سے ایک فرد میں کیا جائے گا یا تمام افراد میں مثلاًایک گھرانے میں دس افراد ہیں اور ان سب کے پاس ایک ہی نصاب (200درہم ) ہیں ۔تو کیا ان دوسو درہموں کو تمام افراد پر تقسیم کیا جائے گا ؟جس سے ہر فرد 20درہم کا مالک ہوگا اور کوئی بھی صاحب نصاب نہیں بنے گا یا پھر یہ 200درہم گھر کے سربراہ کے سمجھے جائیں گے جس کی وجہ وہ صاحب نصاب بن جائے گا۔

وضاحت مطلوب ہے کہ(1)مذکورہ مال کے علاوہ گھر کے افراد میں سے ہر ایک کے پاس اور بھی مال ہے یا نہیں؟ (2)مذکورہ گھر کے سربراہ کو گھر کے افراد  نے کس نیت سے پیسے دیئے ہیں؟مالک بنا کر یا وکیل بنا کر ؟

جواب وضاحت(1)مذکورہ مال کے علاوہ اور مال کسی کے پاس نہیں ہے۔(2)اور کے سربراہ کو مالک بنا کر پیسے دیئےہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں   200 درہم گھر کے سربراہ کے سمجھے جائیں گے اور گھر کے سربراہ پر ہی زکوٰۃ لازم ہو گی۔

فتاویٰ ہندیہ (70/4) میں ہے:

أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما مال فالكسب كله للأب إذا كان الابن في عيال الأب لكونه معينا له ألا ترى أنه لو غرس شجرة تكون للأب۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved