• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نا جائز امور پر مشتمل شادی بیاہ میں شریک ہونے والے کی امامت کا حکم

استفتاء

میرا ایک بھتیجا ہے جو کہ حافظ قرآن ہے اور امامت بھی کرواتا ہے، جب اس کو امامت کے لیے رکھا تھا اس وقت اس کی شادی نہیں ہوئی تھی، مگر جب شادی ہوئی تو اس میں ڈھول بھی بجے اور گھوڑیوں کا ناچ بھی ہوا اور اس ناچ وغیرہ کی وجہ سے ہم بھائیوں میں آپس میں لڑائی جھگڑا بھی ہوا۔ اس کے بعد اور بھی ایسے شادیوں میں شرکت کی جس میں اسی طرح کی محفلیں ہوئی۔ اور اب اس کی بہن یعنی ہماری بھتیجی کی شادی  ہے، اس میں سنا ہے کہ یہ سب کچھ ہو گا اور اس کے علاوہ مہندی کی رسم بھی ہو گی، جبکہ ہمارے خاندان میں کبھی بھی یہ رسم نہیں ہوئی۔ تو محترم مفتی صاحب پوچھنا یہ ہے:

1۔ کیا ہم ایسی شادی کو چھوڑ کر رشتہ توڑنے والوں میں تو شمار نہیں ہوں گے؟

2۔ ایسے آدمی کو امامت کروانا جائز ہے یا نہیں؟ جو ایسے بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز نہیں کرتا۔ جبکہ یہ مدرسہ میں مدرس بھی ہے۔

نوٹ: واضح رہے کہ میں خود بھی امام مسجد ہوں اور میرا ایک بچہ بھی امام مسجد ہے اور دو بچے حافظ قرآن ہیں جو کتابیں پڑھ رہے ہیں، ایک بچی عالمہ ہے اور دوسری بچی کا آخری سال ہے۔ اور میں اپنے بچوں کو ایسی محافل میں لے جانا پسند نہیں کرتا۔ برائے مہربانی میری پریشانی کا شرعی حل بتائیں تاکہ گناہ سے بچا جا سکے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ ایسی شادی میں شریک ہونا جائز نہیں جس میں لہو و لعب ہوں، نیز ایسی شادی میں شریک نہ ہونا قطع تعلقی کے زمرے میں نہیں آتا۔

علی منعهم فإنه يخرج و علی المائدة لا ينبغي أن يقعد و إن لم يكن مقتدی به و هذا كله بعد الحضور و أما إذا علم قبل الحضور فلا يحضر. (هندية: 5/ 343)

2۔ ایسے شخص کی امامت جائز نہیں۔

و أما الفاسق فقد عللوا كراهة تقديمه بأنه لا يهتم لأمر دينه و بأن في تقديمه للإمامة تعظيمه و قد وجب عليهم إهانته شرعاٍ. (رد المحتار: 1/ 560)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved