• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ پڑھنے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

آج ایک جنازےمیں شرکت کی انہوں نےمائیک میں سب سےپہلےسورت فاتحہ اورسورت عصرکی تلاوت کےبعددرودابراہیمی اوراس کےبعدنمازجنازہ کی دعائیں مانگیں مقتدی خاموشی اختیارکیےہوئےتھے۔

کیاحدیث کی روشنی میں یہ طریقہ درست ہےبرائےمہربانی رہنمائی کردیں جزاک اللہ خیرا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

احادیث کی روشنی میں مذکورہ طریقہ درست نہیں کیونکہ نمازجنازہ میں بطورقرات کےسورت فاتحہ یااس کےساتھ مزیدکسی سورت کاپڑھناثابت نہیں بلکہ نمازجنازہ میں قرات (قرآن پڑھنے)سےمنع کیاگیاہےجبکہ مذکورہ شخص نےبظاہرسورت فاتحہ اورسورت عصربطورقرات کےپڑھی ہے۔البتہ نمازجنازہ میں سورت فاتحہ یاکوئی اورسورت بطوردعاکےپڑھ سکتے ہیں ۔اس طرح نمازجنازہ میں سنت یہ ہےکہ سورت فاتحہ(جب کہ بطوردعاکےپڑھی جائے)یاکوئی اوردعاجوپڑھی جائےاسےآہستہ آوازمیں پڑھاجائےبلندآوازمیں نہ پڑھاجائےجبکہ مذکورہ شخص نےسورت فاتحہ اورسورت عصربلندآوازسےپڑھی ہیں ہمارےاس جواب کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

ہماری تحقیق میں نمازجنازہ میں پہلی تکبیر کےبعدسورت فاتحہ بھی پڑھ سکتےہیں اورسورت فاتحہ کےساتھ کوئی اورسورت بھی ملاسکتے ہیں البتہ اس میں مندرجہ ذیل امور کاخیال رکھناضروری ہے۔

1-نمازجنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنااوراس کےساتھ کوئی اورسورت ملانانہ فرض ہےنہ واجب ہےاورنہ ہی کسی روایت سےفرضیت یاوجوب ثابت ہےچنانچہ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہےکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے(نمازجنازہ میں)سورت فاتحہ پڑھی اورفرمایاکہ تاکہ تمہیں معلوم ہوجائےکہ یہ (سورت فاتحہ )سنت ہے۔اس سےمعلوم ہواکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانمازجنازہ میں سورت فاتحہ کےپڑھنےکوسنت سمجھتے تھے فرض یاواجب نہیں سمجھتےتھے۔

تنبیہ 1:بخاری شریف کی اس روایت میں سورت فاتحہ کےساتھ سورت پڑھنےکاتذکرہ نہیں ۔

تنبیہ2:عام نمازوں میں سورت فاتحہ کی فرضیت یاوجوب پرقیاس کرکےنمازجنازہ میں سورت فاتحہ کوفرض یاواجب نہیں کہ سکتےکیونکہ عام نمازوں میں اورنمازجنازہ میں مختلف پہلووں سےفرق ہےمثلانمازجنازہ میں نہ رکوع ہےنہ سجدہ بخلاف عام نمازوں کے۔

2-نمازجنازہ میں سورت فاتحہ یاکسی اورسورت کاپڑھنابطورقرآن ثابت نہیں بلکہ بطورثناءکےہےاورثناء میں اوردعائیں بھی سورت فاتحہ کےقائم مقام ہوسکتی ہیں لہذااگرکوئی شخص نمازجنازہ میں سورۃ فاتحہ کےعلاوہ کوئی اوردعاپڑھتاہےتواس سےیہ نہیں کہہ سکتےکہ یہ خلاف سنت کررہاہےجیسےنمازکےآخرمیں ربناآتنا الخ یارب اجعلنی مقیم الصلاة الخکودعاکےطورپرپڑھتےہیں نہ کہ قرآن کےطورپر۔چنانچہ اگرکوئی شخص ربناآتنا یارب  اجعلنی کی جگہ کوئی اوردعاپڑھ لےتواس کایہ عمل خلاف سنت نہیں ۔

اگرنمازجنازہ میں سورت فاتحہ کاقرآن کےطورپرپڑھناسنت ہوتاتودیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نمازجنازہ میں سورت فاتحہ  کوچھوڑکراوردعائیں نہ پڑھتےاورنمازجنازہ میں قرآن پڑھنےکی نفی نہ کرتےحالانکہ ان حضرات سےنمازجنازہ میں قرآن نہ پڑھنابلکہ قرآن پڑھنےکی نفی کرنااوردوسری دعائیں پڑھناثابت ہے۔

موطااما م مالک( ص210)میں ہے:

حدثني عن مالك عن نافع أن عبد الله بن عمر كان لا يقرأ في الصلاة على الجنازة

ترجمہ:امام مالک رحمہ اللہ حضرت نافع رحمہ اللہ سےروایت کرتےہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ تعالی عنہما نمازجنازہ میں (سورت فاتحہ وغیرہ )کی قراءت نہیں کرتےتھے۔

مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص493

عن عبد الله بن إياس ، عن إبراهيم ، وعن أبي الحصين ، عن الشعبي قالا : ليس في الجنازة قراءة

ترجمہ:حضرت عبداللہ بن ایاس حضرت ابراہیم سےاوروہ ابوالحسن اورامام شعبی سےروایت کرتےہیں کہ نمازجنازہ میں قراءت نہیں ۔

موطاامام مالک ص209

مالك عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن أبيه أنه سأل أبا هريرة كيف تصلي على الجنازة فقال أبو هريرة أنا لعمر الله أخبرك أتبعها من أهلها فإذا وضعت كبرت وحمدت الله وصليت على نبيه ثم أقول اللهم۔۔۔

امام مالک رحمہ اللہ حضرت سعیدبن ابوسعیدرحمہ اللہ روایت کرتےہیں وہ اپنےوالدسےروایت کرتےہیں کہ ان کےوالدنےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ  عنہ سےپوچھاکہ آپ نمازجنازہ کیسےپڑھتےہیں؟توحضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نےفرمایااللہ کی قسم !میں تمہیں بتلاتاہوں (پھرفرمایا)کہ میں میت کےگھرسےہی میت کےپیچھےچلوں گا،پھرجب جنازہ رکھ دیاجائےگاتومیں تکبیرکہوں گا،اوراس کےبعداللہ تعالی کی حمدوثناکروں گااورحضورصلی اللہ پردرودپڑھوں گا،اورپھریہ دعاپڑھوں گا:اللہم عبدک ۔۔۔۔الخ

مدونۃ الکبری ج1ص174

قال ابن وهب عن رجال من أهل العلم عن عمر بن الخطاب وعلى بن أبي

 طالب وعبد الله ابن عمر وعبيد بن فضالة وأبي هريرة وجابر بن عبد الله وواثلة بن الاسقع والقاسم وسالم بن عبدالله وابن المسيب وربيعة وعطاء ويحيى بن سعيد أنهم لم يكونوا يقرؤن في الصلاة على الميت

ترجمہ :حضرت ابن وھب بہت سےاہل علم حضرات سےنقل کرتےہیں کہ حضرت عمربن خطاب ،حضرت علی بن ابوطالب ،عبداللہ بن عمر،عبیدبن فضالہ ،ابوہریرہ اورجابربن عبداللہ رضی اللہ عنہم اورابن المسیب ،ربیعہ ،عطاءبن ابی رباح اوریحی بن سعیدرحمہم اللہ یہ سب حضرات نمازجنازہ میں (سورت فاتحہ وغیرہ کی)قراءت نہیں کرتےتھے۔

3۔نمازجنازہ میں تکبیرات کےعلاوہ باقی دعاوں یاسورت فاتحہ وغیرہ کوبلندآوازسےپڑھناصحیح نہیں ۔کیونکہ اول توبخاری شریف کےحوالےسےحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جوروایت ذکرکی ہےاس میں جہرا (بلند آواز سے)سورت فاتحہ پڑھنےکاذکرنہیں اورثانیابخاری شریف کےعلاوہ دیگر کتابوں کی جن بعض روایات میں سورت فاتحہ جہرا(بلندآواز سے)پڑھنےکا ذکرہےوہ تعلیما(سکھانےکےلیے)ہےباقاعدہ معمول بنانےکےلیے نہیں ۔

سنن نسائی ج1ص281میں ہے:

عن ابى امامةانه قال السنة فى الصلاة على الجنازة ان يقرءفى التكبيرة الاولى بام القرآن مخافة ثم يكبرثلاثاوالتسليم عندالآخرة

ترجمہ:حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کہتےہیں کہ نمازجنازہ میں سنت یہ ہےکہ پہلی تکبیرکےبعد(چاہےتوثنا کے طورپر) سورت فاتحہ چپکےچپکےپڑھےپھر(باقی )تین تکیریں کہےاورآخری تکبیرپرسلام پھیردے۔

شرح صحیح البخاری لابن بطال ج3ص316میں ہے:

وذكر أبو عبُيد فى ( فضائل القرآن ) عن مكحول ، قال : أم القرآن قراءة ومسألة ودعاء . وممن كان لا يقرأ على الجنازة وينكر ذلك : عمر بن الخطاب ، وعلىّ بن أبى طالب ، وابن عمر ، وأبو هريرة ، ومن التابعين : عطاء ، وطاوس ، وسعيد بن المسيب ، وابن سيرين ، وسعيد ابن جبير ، والشعبى ، والحكم ، وبه قال مالك والثورى ، وأبو حنيفة وأصحابه ، قالمالك : الصلاة على الجنازة إنما هو دعاء ، وليس قراءة فاتحة الكتاب معمولاً بها ببلدنا . قال الطحاوى : يحتمل أن تكون قراءة من قرأ فاتحة الكتاب من الصحابة على وجه الدعاء لا على وجه التلاوة ، وقالوا : إنها سُنَّة ، يحتمل أن الدعاء سُنَّة ، لما روى عن جماعة من الصحابة والتابعين أنهم أنكروا ذلك ، ولما لم يقرءوا بعد التكبيرة الثانية دل أنه لا يقرأ فيما قبلها ، لأن كل تكبيرة قائمة مقام ركعة ، ولما لم يتشهد فى آخرها دل أنه لا قراءة فيها

ترجمہ : ابوعبید نے فضائل قرآن میں حضرت مکحول سےنقل کیاہےکہ سورت فاتحہ قراءت بھی ہےمسئلہ بھی اوردعابھی ہے۔ عمر بن خطاب ،علی بن ابی طالب ،ابن عمر ،ابوہریرہ رضی اللہ عنہم اجمعین اور تابعین میں سے عطاء،طاوس ،سعیدبن مسیب ابن سیرین ،سعیدبن جبیر،امام شعبی اورحکم رحمہم اللہ یہ سب حضرات نمازجنازہ میں(سورت فاتحہ وغیرہ کی)قرات نہیں کرتےتھےاور اس کی نفی کرتےتھےیہی امام مالک ،امام ثوری ،اورامام ابوحنیفہ  رحمہم اللہ اوران کےاصحاب کاقول ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ نمازجنازہ دعاہےاورنمازجنازہ میں سورت فاتحہ پڑھنےکاہمارےشہر(مدینہ منورہ )میں معمول نہیں ہے۔ امام طحاوی رحمہ اللہ فرماتےہیں ہےکہ جوحضرات سورت فاتحہ (نمازجنازہ میں )پڑھتےتھےان کےبارےمیں یہ بھی ممکن ہےکہ وہ علی وجہ الدعاء(دعاکے طورپر)پڑھتےتھے علی وجہ التلاوت(تلاوت کےطورپر)نہ پڑھتےتھےاورجن حضرات نےانهاسنة(نمازجنازہ میں سورت فاتحہ سنت ہے) کہاہےان کی اس بات کایہ مطلب بھی ہوسکتاہےکہ ان کی مرادیہ ہو کہ دعاسنت ہےاول تواس وجہ سےکہ صحابہ اورتابعین کی ایک جماعت (سورت فاتحہ وغیرہ کی)قراءت کی نفی کرتے ہیں ۔ ثانیااس لیےکہ دوسری تکبیرکےبعدقراءت نہ کرنابھی اس بات پردلالت کرتاہےکہ اس سےپہلے(یعنی پہلی تکبیرکےبعد)بھی قراءت نہیں کی جاتی تھی کیونکہ ہرتکبیرایک رکعت کےقائم مقام ہےاورجب آخرمیں تشہدنہیں پڑھتےتھے تواس سےبھی معلوم ہواکہ نمازجنازہ میں قراءت نہیں ۔

اعلاءالسنن ج8ص259میں ہے:

والحاصل :انالانمنع عن القرآن فى صلاةالجنازةاذاكان على نية الثناءمن السورالدالة عليه

حاصل کلام یہ ہےکہ ہم (حنفیہ )نمازجنازہ میں قرآن پڑھنےسے منع نہیں کرتےبشرطیکہ علی وجہ الثناء (ثناکےطورپر) ہواوران سورتوں سے پڑھےجوثناپردلالت کرتی ہوں۔

عمدة القارى ج8ص140میں ہے:

الثالث ليس في حديث ابن عباس صفة القراءة بالنسبة إلى الجهر والإسرار وعند البيهقي من طريق الشافعي عن ابن عيينة عن ابن عجلان عن سعيد بن أبي سعيد قال سمعت ابن عباس يجهر بفاتحة الكتاب في الصلاة على الجنازة ويقول إنما فعلت لتعلموا أنها سنة فقد يستدل به على الجهر بها ………ويجاب عن الحديث بأنه أراد بذلك إعلامهم بما يقرأ ليتعلموا ذلك ولعله جهر ببعضها كما صح في الحديث أن النبي كان يسمعهم الآية أحيانا في صلاة الظهر وكان مراده ليعرفهم السورة التي كان يقرأ بها في الظهر

ترجمہ:ابن عباس رضی اللہ عنہ کی(بخاری میں مذکورہ) حدیث میں( سورت فاتحہ کو)بلندآوازسےاورآہستہ آوازسے پڑھنےکاذکرنہیں ہےامام بیہقی رحمہ اللہ نےامام شافعی رحمہ اللہ کی طریق سے سعیدبن ابی سعیدسے نقل کیاہےکہ سعیدبن ابی سعید فرماتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کونمازجنازہ میں سورت فاتحہ بلندآوازسےپڑھتے ہوئےسنااورابن عباس رضی اللہ عنہمافرماتے تھے کہ میں نے اس وجہ سے کیاتاکہ تم جان لوکہ یہ سنت ہے۔اس حدیث سے جہراپڑھنےپراستدلال کیاجاتاہے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہ کی (بیہقی میں مذکورہ) حدیث کاجواب یہ دیاجاتاہےکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نےسورت فاتحہ بلندآوازسےاس لئےپڑھی تاکہ لوگوں کومعلوم ہوجائےکہ وہ نمازجنازہ میں کیاپڑھ رہےہیں(یہ ان کامستقل معمول نہ تھا) جیساکہ حدیث میں آتاہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ظہرکی نمازمیں آیت انچی آواز سے پڑھتے تاکہ دوسرے بھی جان لیں کہ ظہرکی نمازمیں یہ آیت تلاوت کی ہے۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved