• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نکاح کے وقت لڑکی کے کفیل کا نام لینا

استفتاء

*** اپنی بیٹی کو پیدائش کے بعد اپنےبھائی *** جس کے گھر کوئی اولاد نہیں تھی کو دے دیتے ہیں۔ *** صاحب اس بچی کے تمام کاغذات پیدائشی پرچی سے لے شناختی کارڈ تک ولدیت کے خانے تک*** لکھواتے ہیں، حالانکہ اس بچی کے اصل والد حیات ہیں۔ اب بچی کے نکاح کے وقت بھی انہوں نے ولدیت کے خانے میں اپنا نام لکھوایا، اصل والد کا نام نہیں لکھا اور نکاح خواں نے بھی "نمرہ بنت سعید” کہا جبکہ*** کہنا چاہیے تھا۔ شریعت کی رو سے اس بارے میں اپنی رہنمائی فرمائیں کہ کیا یہ نکاح جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو اس کی شرعی حیثیت سے آگاہ کریں۔

نوٹ :  نکاح کی مجلس میں ایسے متعدد قریبی رشتہ دار موجود تھے جو لڑکی کو ذاتی طور سے جانتے تھے اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ

لڑکی کی اصل ولدیت کیا ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح منعقد ہو گیا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ دار العلوم دیوبند میں ہے:

"سوال: ایک لڑکی کا باپ مر گیا، اس کی ماں نے اپنے شوہر کے حقیقی بھائی سے نکاح کر لیا، اس لڑکی کا نکاح اس کے چچا یعنی سوتیلے باپ کی اجازت سے ہوا اور بوقت نکاح بجائے نام اصل باپ کے سوتیلے باپ کا لیا گیا، پس اس صورت میں یہ نکاح صحیح ہوا یا نہیں؟

جواب: ظاہر یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہو گیا، اگرچہ در مختار کی ایک عبارت سے ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ ایسی غلطی میں نکاح صحیح نہیں ہوتا وہ عبارت یہ ہے "غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح للجهالة الخ” اس ہر علامہ شامی نے یہ لکھا ہے "قوله لم يصح لأن الغائبة يشترط ذكر اسمها و اسم أبيها و جدها و تقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافاً لابن الفضل و عند الخصاف يكفي مطلقاً و الظاهر أنه في مسئلتنا لا يصح عند الكل لأن ذكر الاسم وحده لا يصرفها عن المراد إلی غيره بخلاف الاسم منسوباً إلی أب آخر فإن فاطمة بنت أحمد لا تصدق علی فاطمة بنت محمد تأمل و كذا يقال لو غلط في اسمها الخ”

لیکن جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو در مختار کے اس قول للجہالۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ علت عدم جواز نکاح کی غلطی مذکور میں جہالت سے جو صورت مسئولہ میں مفقود ہے دوسرے در مختار کا مسئلہ بصورت غطلی کے فرض کیا گیا ہے کہ وکیل نے غلطی سے نام بدل دیا اور صورت مسئولہ میں غلطی سے ایسا نہیں کیا بلکہ بر بناء علی المعروف و الشہرۃ ایسا کیا گیا، کیونکہ عرف میں والدہ کے شوہر ثانی کو باپ کہا جاتا ہے، غرض جو رفع جہالت ہے وہ اس صورت میں حاصل ہے، کیونکہ مطلب اس نسبت کا یہ ہے کہ فلاں لڑکی جو فلاں شخص کی تربیت میں ہے اور فلاں لڑکا جو فلاں شخص کے تربیت میں ہے ان کا عقد ہوا ہے، بلکہ عجب نہیں کہ اصل باپ کی طرف نسبت کرنے میں وہ تعرف نہ ہو جو اس نسبت میں حاصل ہے اور مقصود اصلی رفع جہالت ہی ہے، جیسا کہ شامی میں در مختار کے اس قول "و لا المنكوحة مجهولة” كے تحت "قلت و ظاهره أنها لو جرت المقدمات علی معينة و تميزت عند الشهود أيضاً يصح العقد و هي واقعة الفتوی لأن المقصود نفي الجهالة و ذلك حاصل بتعينها عند العاقدين و الشهود و إن لم يصرح باسمها كما إذا كانت أحداهما متزوجة و يؤيده ما سيأتي من أنها لو كانت غائبة و زوجها وكيلها فإن عرفها الشهود و علمه أنه أرادها كفی ذكر اسمها و إلا لابد من ذكر الأب و الجد أيضا.” الحاصل: صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہو گیا۔ فقط” (7/ 101)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved