• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

نوکرانی کو زکوة دینا

استفتاء

****کے مالک نے پلازہ میں کام کاج کے لیے ایک نوکرانی رکھی ہوئی ہے۔ یہ نوکرانی اپنے شوہر کے ساتھ ہی اس پلازہ میں رہتی ہے۔ اس سے رہائش کا کرایہ بجلی، پانی کا بل وغیرہ نہیں لیا جاتا کیونکہ یہ نوکرانی بھی مالکوں کے پاس مناسب اجرت پر کام کرتی ہے لیکن پلازہ کے مالک اس کو اصل تنخواہ کے علاوہ بھی ہر ماہ اپنی زکوة کی مد میں سے کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہیں اور نوکرانی بھی یہی سمجھتی ہے کہ یہ پیسے میری تنخواہ کے علاوہ ہیں۔ آیا نوکرانی کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہوئے بجلی پانی وغیرہ کی مد میں کرایہ نہ لینا اور نوکرانی کو اس کی تنخواہ کے علاوہ اپنی زکوة کی مد میں سے کچھ پیسے دیتے رہنا شرعاً اس کی کیا حیثیت ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

نوکرانی سے رہائش کا کرایہ اور بجلی، پانی کا بل وغیرہ نہ لینا مستحسن و باعث اجر ہے اسی طرح ہر ماہ زکوة کی نیت سے کچھ رقم نوکرانی کو دیتے رہنا بھی جائز ہے بشرطیکہ وہ مستحق زکوة ہو اور زکوة میں دی جانے والی رقم اس کی خدمت کے معاوضہ کے طور پر نہ ہو۔

(١)  قال تبارک و تعالیٰ: (البقرہ: ١٩٥)

واحسنوا إنَّ الله یحِب المحسنین.

(٢)الاختیار: (١/١٣٢)

(ولایجوز أداؤها إلابنیة مقارنة لعزل الواجب أو للأداء) لأن النیة لابد منها لأداء العبادات علی ما مر في الصلاة، والزکاة تؤدَّی متفرقاً، فربما یحرج في النیة عند أداء کل دفعة، فاکتفینا بالنیة عند العزل تسهیلاً و تیسیراً.

(٣)البحرالرائق: (٢/٣١٩)

وأشار إلی أن الدفع إلی کل قریب لیس بأصل ولا فرع جائز، و هو مقید بما في ”الولوالجیة”: رجل یعول أخته، أو أخاه، أو عمه، فأراد أن یعطیه الزکاة فإن لم یفرض القاضي علیه النفقة جاز لأن التملیک بصفة القربة یتحقق من کل وجه و إن فرض علیه النفقة لزمانته إن لم یحتسب من نفقتهم جاز، و إن کان یحتسب لا یجوز لأن هذا أداء الواجب عن واجب آخر.

(٤)الجوھرة: (١/٣١٠)

قال الله تعالیٰ: (إنما الصدقات للفقراء والمساکین) الآیة. اللام في هذا الباب لبیان جهة المستحق لا للتشریک، والقسمة بل کل صنف مما ذکره الله یجوز للإنسان دفع صدقته کلها إلیه دون بقیة الأصناف، و یجوز إلی واحد من الصنف، لأن کل صنف منهم لا یحصی.… والله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved