• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

پراویڈنٹ فنڈ میں ہونے والے اضافے کاشرعی حکم

استفتاء

السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

*** ایک پراوئیویٹ ٹیلی کام کمپنی میں ملازمت کرتا ہے۔  ہر ماہ  سائل کی تنخواہ سے تقریباً 10% کٹوتی ہوتی ہے جو کمپنی کے پراویڈنٹ فنڈ کے کھاتے میں چلی جانی ہے۔ کمپنی بھی اتنی ہی مقدار کی رقم اپنی طرف سے اس فنڈ میں ڈالتی ہے، ہر ماہ کی تنخواہ کی رسید میں یہ کٹوتی اس طرح دکھائی جاتی ہے:

حصہ نمبر 1: ملازم کی طرف سے دیا گیا روپیہ: x……..

حصہ نمبر 2: کمپنی کی طرف سے شامل کیا گیا روپیہ:x…

حصہ نمبر 3: سود کی مد میں حصہ آنے والا روپیہ:x……

4۔ کل رقم جو ملازم کے حصہ میں آئے گی (حصہ نمبر 1 + حصہ نمبر 2 + حصہ نمبر 3)۔

حصہ نمبر 1 میں ملازم کو اختیار ہے کہ وہ یہ حصہ سال میں ایک دفعہ نکلوا سکتا ہے۔ مگر حصہ نمبر 2 اور حصہ نمبر 3 ملازم کو

ملازمت چھوڑنے کی صورت میں ہی ملیں گے۔

اس کے علاوہ کمپنی چھوڑنے پر ملازم کو Gratuity کی مد میں بھی کچھ رقم دی جاتی ہے جو کہ (آخری ماہانہ رقم x مجموعی سروس کے سال) کے حساب سے نکالی جاتی ہے۔

سوالات درج ذیل ہیں:

1۔ کیا حصہ نمبر 1 پر ہر سال زکوٰۃ دینا ضروری ہے اگرچہ ملازم اس حصہ کو سال میں کمپنی کے کھاتے سے وصول نہ کرے؟

2۔ حصہ نمبر 2 اور حصہ نمبر 3 پر کمپنی چھوڑنے سے پہلے اور  پیسہ آنے سے پہلے زکوٰۃ واجب ہے؟

3۔ کیا ملازم کمپنی چھوڑنے کی صورت میں حصہ نمبر 2 لے سکتا ہے؟

4۔ کیا ملازم کمپنی چھوڑنے کی صورت میں حصہ نمبر 3 لے سکتا ہے؟

5۔ اگر ملازم حصہ نمبر 3 نہیں لے سکتا تو ایک ضمنی سوال ہے:

الف: جب ملازم کو Gratuityکی رقم ملے گی تو اس رقم پر حکومت انکم ٹیکس وصول کرے گی۔ کیا ملازم حصہ نمبر 3 سے انکم ٹیکس کے برابر رقم لے سکتا ہے؟ اور باقی ماندہ رقم کو بغیر ثواب کی نیت سے کسی کو دے سکتا ہے؟

نوٹ: i۔ ملازم کو تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی کرانا لازمی ہے۔

ii۔ ملازم کو یہ کلی اختیار حاصل ہے کہ وہ سود کی مد میں جمع شدہ رقم لے یا نہ لے۔ سائل کے کھاتے میں فی الحال سود کی مد میں جمع شدہ رقم ہے۔ براہ مہربانی رہنمائی فرمائیں۔

وضاحتیں: 1۔ ملازم سال میں ایک دفعہ اپنا حصہ نکلوا سکتا ہے، اپنا حصہ نکلوانے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے۔

2۔ سود کا حساب کل رقم پر کیا جاتا ہے (حصہ نمبر1 اور حصہ نمبر2)۔ اگر ملازم ہر سال اپنی جمع شدہ رقم نکلوالے (حصہ نمبر1) تو اس کے حصہ میں نسبتاً سود کم آئے گا، اگر وہ اپنی رقم نہ نکلوائے۔ کمپنی کو جو کل سود موصول ہوتا ہے، وہ ملازم کی طرف سے فنڈ میں ڈالی گئی، کل رقم کے تناسب سے ہوتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔ وصول نہ کرنے کی صورت میں زکوٰۃ واجب تو نہیں، لیکن اگر گنجائش ہو تو ادا کر دینا بہتر ہے۔

2۔ نہیں۔

3۔ لے سکتا ہے۔

4۔ لے سکتا ہے۔

5۔  چونکہ مذکورہ صورت میں ملازم حصہ نمبر 3 کی رقم لے سکتا ہے، اس لیے اس ضمنی سوال کے جواب کی ضرورت نہیں۔

في البزازية:

ان موسراً والمعجل قدر النصاب لا يجوز عندهما وبه يفتى احتياطاً وعند الإمام: يجوز مطلقاً. قال في السراج: والخلاف منبي على أن المهر في الذمة ليس بنصاب عنده وعندهما نصاب اه، نحر.

قلت لعل وجه الأول كون دين المهر دين ضعيفاً لأنه ليس بدل مال، ولهذا لا تجب زكاته حتى يقبض ويحول عليه حول جديد فهو قبل القبض لم ينعقد نصاباً في حق الوجوب فكذا في حق جواز الأخذ … فتأمل. (3/ 341)

إذا لم تقبض المرأة شيئاً (أي من المهر إذا كان ديناً على الزوج) وحال الحول عليه في يد الزوج ثم طلقها قبل الدخول ولم أر من صرح به، والظاهر أن لا زكاة على أحد، أما الزوج فلأنه مديون بقدر ما في يده ودين العباد مانع كما مر، وأما المرأة فلأن مهرها على الزوج دين ضعيف وقد استحق الزوج نصفه قبل القبض، فلا زكاة عليها ما لم يمض حول جديد بعد القبض للباقي… تامل (3/ 285، طبع بيروت) ………………………….فقط و الله تعالیٰ أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved