- فتوی نمبر: 13-68
- تاریخ: 26 اگست 2019
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ایک شخص تین بندوں (نواز علی ،عبدالباسط،عبدالوحد)کا مشترکہ 300ملین مقروض ہے ۔مقروض نے اپنا مکان مشترکہ تینوں کو دیا جس کی قیمت 60ملینلگائی گئی اس ساٹھ ملین میں سے جو عبدالباسط شریک ہے اس نے اپنا حصہ دوسرے شریک نواز علی کو بیچا کچھ مدت کے بعد جو مقروض ہے اس نے کورٹ میں دعوی کیا کہ میرے مکان کی قیمت 60ملین سے زیادہ ہے۔قاضی نے انجنیئر کو معائنہ کے لیے کہا انجنیئر نے مکان دیکھنے کے بعد مکان کی قیمت 68ملین لگادی ۔60ملین کے اعتبار سے مقروض پر قرضے میں سے 240ملینباقی بچتے تھے لیکن قاضی نے 68ملین پر فیصلہ سنایا اس اعتبار سے مقروض پر باقی 232ملینباقی ہیں اب سوال یہ ہے کہ عبد الباسط نے جس وقت اپنا حصہ اپنے شریک نواز علی کو بیچا اس وقت مکان کی قیمت 60ملین تھی یعنی بقایا 240ملین میں عبدالباسط شریک ہو گا یا 232ملین میں ؟
وضاحت مطلوب ہے :
۱۔ پہلے جب ساٹھ ملین رقم مکان کی طے کی تھی وہ کس طرح طے کی تھی آپس میں مل کر یا قیمت لگوائی تھی کسی ڈیلر سے؟
۲۔ مقروض پہلے جو قیمت باہمی رضامندی سے طے ہوئی اب اس بارے میں کیا کہتا ہے؟
جواب وضاحت:
۱۔ آپس میں مقروض کے ساتھ مل کر لگائی تھی بعد میں مقروض نے زیادہ کادعوی کیا۔
۲۔ مقروض یہ کہہ رہا ہے کہ مجھ سے سستا لیا ہے۔
مزید وضاحت :
وہ چونکہ مقروض تھا اور قرض ادا نہیں کرہا تھا اس لیے تینوں شرکاء نے اس سے کہا کہ ہم تمہارا مکان لیں گے اور باہمی رضامندی سے قیمت 60ملین لگائی بعد میں اس کو لالچ ہوا کہ زیادہ رقم کا ہوتا کہ مزید قرض بعاف ہو جائے مگر عدالت نے بھی صرف آٹھ ملین ہی بڑھائے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں چونکہ مقروض کی رضامندی سے مکان کی قیمت 60ملین طے ہوئی تھی اس لیے بعد میں مقروض کا یہ دعوی کرنا کہ اس مکان کی قیمت زیادہ ہے ۔لہذا مجھے زیادہ قیمت دلوائی جائے،درست نہیں ۔مذکورہ صورت میں چونکہ بنائے دعوی ہی درست نہیں اس لیے اس بنا پر عدالت کا فیصلہ شرعا قابل اعتبار نہیں ۔لہذا مقروض کے ذمے تینوں کے 240میلین دینے باقی ہیں چنانچہ عبد الباسط باقی 240ملین میں بھی شریک ہو گا۔
توجیہ: مذکورہ صورت بيع الدين ممن عليه الدين يا اخذ الدين من غير جنسه کی بنتی ہے دونوں صورتوں میں آپس کی رضامندی سے چیز کی جو قیمت طے ہوجائے وہ معتبر ہو نی ہے اور فریقین کی دلی رضامندی کے بغیر اس قیمت سے انحراف کی اجازت نہیں ہوتی ۔
ولو باع هذا الدين ممن عليه الدين جاز بان اشتري منه شيأبعينه بدينه الذي له في ذمته لانه باع ماهومقدور التسليم عندالشراء لان ذمته في يده بخلاف الاول وکذا اذا صالح معه من دينه علي شيء جاز الصلح والله سبحانه وتعالي اعلم(بدائع :181/5)
وقداختلف الناس في اقتضاء الدراهم من الدنانير فذهب اکثر اهل العلم الي جوازه ومنع من ذلک ابو سلمة بن عبد الرحمن وابو شبرمة وکان ابن ابي ليلي يکره ذلک الا بسعريومه ولايعتبرغيره السعر ولم يبالوا کان ذلک باغلي او ارخص من سعر اليوم (بذل المجهود12/15)
قال الموفق يجوز هذ افي قول اکثر اهل العلم ومنع منه ابن عباس وابو سلمة وابن شبرمة وروي ذلک عن ابن مسعود لان التقابض شرط وقد تخلف ولنا حديث الباب وقال احمد انما يقضيه بسعر يومها لم يختلفوا فيه الا ماقال اصحاب الرأي انما يقبضه مکانها ذهبا علي التراضي لانه بيع في الحال فجاز ماتراضيا عليه اذا اختلف الجنس(حاشية علي البذل :11/15)
© Copyright 2024, All Rights Reserved