• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرض پر زکوۃ کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید کے قبضے میں تین لاکھ روپے ہیں جن پر سال گزرنے کو اب تک ایک مہینہ باقی ہے کہ زید نے اپنی ضروریات کے لئے زمین فروخت کردی جس کی قیمت پانچ لاکھ روپے تھی لیکن وہ پانچ مہینے بعد وصول کی جائے گی ، اب پوچھنا یہ ہے کہ ان تین لاکھ موجودہ پر جب مہینہ گزر جائے تو کیا ان پانچ لاکھ میں بھی زکوۃ دے گا یا صرف ان تین لاکھ میں جو موجود ہیں ،کسی سے سنا ہے کہ یہ مال مستفاد ہے اور ملکیت آچکی ہے اور یہ قرض بھی ممکن الوصول ہے لہذا اس میں زکوۃ واجب ہے، لیکن بعض علماء فرماتے ہیں کہ اس پر اب تک قبضہ نہیں آیا ہے یہ مال مستفاد میں شمار نہیں ہوتا،اس میں زکوۃ دینا واجب نہیں ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں مہینہ گزرنے کے بعد پانچ لاکھ روپے پربھی زکوۃ واجب ہوگی  کیونکہ یہ دین متوسط ہے اور دین متوسط پر قبضے سے پہلے بھی زکوۃ واجب ہوتی ہے ،چاہے ادائیگی قبضے سے پہلے اپنے پاس سے کردے یا جب قبضہ مل جائے اس وقت ادائیگی کردے۔

نوٹ:مذکورہ صورت میں دین کی بحث تو جاری ہوسکتی ہے  لیکن مال مستفاد کی بحث بے محل ہے کیونکہ مال مستفاد کی بحث اس صورت میں ہے جب سال پورا ہونے سے پہلے مال زکوۃ کی جنس میں سے کوئی چیز (عین، نہ کہ دین) ملکیت  اور قبضے میں آجائے جبکہ دین، عین سے الگ ہے اور اس کے احکام بھی عین سے الگ ہیں۔

در مختار مع الشامی(3/281-282) میں ہے:( و ) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي ومتوسط وضعيف، ( فتجب ) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل ( عند قبض أربعين درهما من الدين ) القوي كقرض ( وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم ( و ) عند قبض ( مائتين منه لغيرها ) أي من بدل مال لغير تجارة وهو المتوسط كثمن سائمة وعبيد خدمة ونحوهما مما هو مشغول بحوائجه الأصلية كطعام وشراب وأملاك . ويعتبر ما مضى من الحول قبل القبض في الأصح.قال ابن عابدين تحت قوله ( وأملاك ) من عطف العام على الخاص لأنه جمع ملك بكسر الميم بمعنى مملوك، هذا بالنظر إلى اللغة، أما في العرف فخاصة بالعقار، فيكون عطف مباين اه ح  وهو معطوف على طعام أو على ما في قوله: ’’مما هو ‘‘. قوله ( ويعتبر ما مضى من الحول ) أي في الدين المتوسط لأن الخلاف فيه أما القوي فلا خلاف فيه لما في المحيط من أنه تجب الزكاة فيه بحول الأصل لكن لا يلزمه الأداء حتى يقبض منه أربعين درهما وأما المتوسط ففيه روايتان في رواية الأصل تجب الزكاة فيه ولا يلزمه الأداء حتى يقبض مائتي درهم فيزكيها، وفي رواية ابن سماعة عن أبي حنيفة: لا زكاة فيه حتى يقبض ويحول عليه الحول، لأنه صار مال الزكاة الآن فصار كالحادث ابتداء، ووجه ظاهر الرواية أنه بالإقدام على البيع صيره للتجارة فصار مال الزكاة قبيل البيع اه ملخصاً.ہندیہ(383/1) میں ہے:ومن كان له نصاب فاستفاد في أثناء الحول مالا من جنسه ضمه إلى ماله وزكاه سواء كان المستفاد من نمائه أو لا، وبأي وجه استفاد ضمه سواء كان بميراث أو هبة أو غير ذلك ولو كان من غير جنسه من كل وجه كالغنم مع الإبل فإنه لا يضم هكذا في الجوهرة النيرة.۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved