• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

قرآن کریم سےخود کشی سے متعلق استدلال کے غلط فہمی کا ازالہ

استفتاء

1۔كيا اسلام میں خود کشی حلال ہےکیونکہ قرآن کی ایک آیت میں ہے کہ اللہ تعالی کی مدد اگر آپ کو نہیں ملتی  تو خود کو مار دو۔(سورۃ الحج میں آیت:من كان يظن ان لن ينصره الله ……)

2۔مالی  حالات کے صحیح ہونے کیلئے میں بھی اللہ تعالی سے کئی سال سے مانگ رہا ہوں لیکن ابھی تک مدد نہیں ملی۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1۔اسلام میں خود کشی کرنا جائز نہیں بلکہ  قرآن و حدیث میں  خود کشی کرنے پر وعید ہے چنانچہ ارشاد باری ہے:

ولاتقتلوا أنفسكم ان الله كان بكم رحيما ومن يفعل ذلك عدوانا وظلما فسوف نصليه نارا وكان ذلك على الله يسيرا [سورة النساء،آيت:29]

ترجمہ:اور اپنی جانوں کو مت ہلاک کرو بے شک اللہ تعالی تم پر مہربان ہے اور جو کوئی تعدی اور ظلم سے ایسا کرے گا تو ہم عنقریب اسے(دوزخ)کی آگ میں ڈال دیں گےاور یہ اللہ پر بالکل آسان ہے۔

تفسير  كبير(10/ 57) میں ہے:

«ولا تقتلوا أنفسكم ‌يدل ‌على ‌النهي عن قتل غيره وعن قتل نفسه بالباطل»

یہ آیت کسی دوسرے  کو  اوراپنے آپ کو ناحق قتل کرنے سے ممانعت پر دلالت کرتی ہے۔

بخاری شریف(حدیث نمبر:1365)میں ہے:

عن أبي هريرة رضي الله عنه قال قال النبي صلى الله عليه وسلم:الذي يخنق نفسه يخنقها فى النار والذي يطعنها يطعنها فى النار

ترجمہ:حضرت ابوہریرۃ ؓ    سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :جس نے اپنے آپ کو گلا گھونٹ کر ہلاک کیا وہ دوزخ میں بھی اپنا گلا گھونٹے گا اور جس نے اپنے آپ کو نیزہ مارا وہ آگ میں (بھی)اپنے آپ کو نیزہ مارے گا

قرآن کریم کی جس آیت سے خود کشی کو آپ نے حلال سمجھا ہےاس میں خودکشی کا تذکرہ نہیں۔

معارف القرآن (6/245)میں ہے :

من کان یظن أن لن ينصره الله فى الدنيا والاخرة فليمدد بسبب الى السماء ثم ليقطع فلينظر هل يذهبن كيده مايغيظ

ترجمہ: جس کو یہ خیال ہو کہ ہرگز نہ مدد کرے گا اس کی اللہ دنیا میں اور آخرت میں تو تان لے ایک رسی آسمان کو پھر کاٹ ڈالے اب دیکھے کچھ جاتا رہا اس کی تدبیر سے اس کا غصہ۔

حاصل  یہ ہے کہ اسلام کا راستہ روکنے والے معاند(دشمن از ناقل)   جو یہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالی  اپنے رسول اور  اس کے دین کی مدد نہ کرے گا اس کو سمجھنا چاہیے کہ یہ تو جبھی ہوسکتا  ہے جبکہ معاذ اللہ آنخضرت ﷺ سے منصب نبوت سلب ہوجائےاور آپ پر وحی آنا منقطع ہوجائے کیونکہ اللہ تعالی  جس کو نبوت و رسالت سپرد فرماتا ہے  اور اس کووحی  الہی سے نوازتاہےاس کی مددتو  دنیا  و آخرت میں کرنےکا اس کی طرف سے پختہ عہد ہےاور   عقلا  بھی  اس کے خلاف نہ ہوناچا ہیے  تو جو شخص  آپ کی اور آپ کے دین کی ترقی کو روکنا چاہتا ہے  اس کو اگر اس کے قبضہ میں ہو تو ایسی تدبیر کرنا چاہیے کہ یہ منصب نبوت سلب ہوجائے اور وحی الہی منقطع ہوجائے ۔اس مضمون کو ایک فرض محال کے عنوان سے  اس طرح تعبیر کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے وحی کو منقطع کرنے کا کا م چاہتا ہے تو کسی طرح آسمان پر پہنچے وہاں جاکر اس سلسلہ وحی کو ختم کردے اور ظاہر  ہےکہ نہ کسی  کا اس طرح آسمان پر جاناممکن نہ اللہ تعالی سے قطع وحی کو کہنا ممکن  تو پھر جب تدبیر  کوئی کا ر گر نہیں  تو اسلام و ایمان  کے خلاف غیظ و غضب کا کیا نتیجہ؟

یہ تفسیر بعینہ درمنثور میں ابن زید سے روایت کی اور میرے نزدیک  یہ سب سے بہتر اور صاف تفسیر ہے (بیان القرآن مع تسہیل)قرطبی نے اسی تفسیر کو  ابن جعفر نحاس سے نقل کرکے فرمایا کہ یہ سب سے احسن تفسیر ہے  اور حضرت ابن عباس ؓ سے بھی اس تفسیر کو نقل کیا ہے ۔

2۔ آپ یہ نہ سمجھیں کہ آپ کی دعا قبول نہیں ہورہی  بلکہ آپ کی دعا ضرور قبول ہورہی ہے البتہ قبولیت کے آثار بعض اوقات دنیا میں نظر آجاتے ہیں اور بعض اوقات آخرت میں لیکن آخرت والے آثار کا حقیقی اندازہ آنکھ بند ہونے کے بعد ہی پتا چلے گا۔

چنانچہ فضائل اعمال(ص:656)میں ہے:

نبی کریم ﷺکا ارشاد ہے جب مسلمان دعا کرتا ہے بشرطیکہ قطع رحمی یا کسی گناہ کی دعا نہ کرے تو حق تعالی شانہ کے یہاں سے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور ملتی ہے یا خود وہی چیز ملتی  ہے جس کی دعا کی ،یا اس کے بدلے میں کوئی برائی یا مصیبت اس سے ہٹادی جاتی ہے،یا آخرت میں اسی قدر ثواب اس کے حصہ میں لگادیا جاتا ہے ،ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن حق تعالی شانہ بندہ کو بلاکر ارشاد فرمائیں گے کہ اے میرے بندے میں نے تجھے دعا کرنے کا حکم دیا تھا اور اس کے قبول کرنے کا وعدہ کیا تھا تو نے مجھ سے دعا مانگی تھی؟وہ عرض کرے گا مانگی تھی ،اس پر ارشاد ہوگا تو نے کوئی دعا ایسی نہیں کی جو  کو میں نےقبول  نہ  کیا ہو ،تونے فلاں دعا مانگی تھی کہ فلاں تکلیف ہٹادی جائے میں نے اس کو دنیا میں پورا کردیا تھا اور فلاں غم کے دفع ہونے کیلئے دعا کی تھی مگر اس کا اثر کچھ تجھے معلوم نہیں ہوا ،میں نے اس کے بدلہ میں  فلاں اجروثواب تیرے لیے متعین کیا ،حضورﷺارشاد فرماتے ہیں کہ اس کو ہر ہر دعا یا دکرائی جاوے گی اور اس کا دنیا میں پورا ہونا یا آخرت میں اس کا عوض بتلایا جاوے گا ،اس اجروثواب کی  کثرت کو دیکھ کر  وہ بندہ اس کی تمنا کرے گا  کہ کاش دنیا میں اس کی کوئی دعا بھی پوری نہ ہوئی ہوتی  کہ یہاں  اس کا اس قدر اجر ملتا ہے،غرض دعا نہایت ہی  اہم چیز ہے اس کی طرف سے غفلت بڑے سخت نقصان اور خسارہ کی بات ہے ،اور ظاہر میں اگر قبول کے آثار نہ دیکھیں تو بددل نہ ہونا چاہیے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved