- فتوی نمبر: 3-327
- تاریخ: 10 دسمبر 2010
- عنوانات: عقائد و نظریات > حدیث و سنت
استفتاء
میری خالہ*** اپنی جوانی میں ہی بیوہ ہو گئی تھیں۔ اب ان کی عمر تقریباً 75 برس تھی۔ اور وہ مختلف قسم کے عارضوں میں مبتلاء تھیں۔ ان کا ایک بیٹا اورا یک بیٹی ہے۔ ان کا بیٹا پچھلے سال عید الاضحے کے دن قضائے الہی سے وفات پا گیا تھا۔ اس کے بعد ان کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لیے میں ان کو اور ان کی بہو ، جو کہ میری سگی بہن بھی ہے کو اپنے گھر لے آئی۔ یہ دونوں بے سہارا خواتین اب میرے گھر میں میرے ساتھ رہائش پذیر ہیں۔ ان کی کفالت اللہ تعالیٰ مختلف ذرائع سے پوری کروا رہا تھا۔ میری خالہ مختلف لوگوں سے وصول کیے ہوئے پیسوں میں سے اپنے ذاتی اخراجات پورے کرنے کے بعد باقی پیسے یہ کہ کر میرے پاس رکھوا دیتی تھی کہ میں عمرے پر جانے کے لیے تمہارے پاس اپنے پیسے جمع کروا رہی ہوں۔ اگر میری زنگی نے وفا کی اور عمرے کے اخراجات کے برابر پیسےجمع ہو گئے تو میں خود ہی تم سے یہ پیسے لے کر عمرے کے چلی جاؤں گی۔ اور خود ہی اپنے پیسے خرچ کر لوں گی۔ اور اگر اس سے پہلے ہی میں مر گئی تو تم یہ پیسے میری تدفین پر لگا دینا۔ کسی اور کو خرچہ مت کرنے دینا۔ اس کے بعد جو پیسے بچیں گے اس میں سے تم ہفتہ میں ایک مرتبہ میرے ایصال ثواب کے لیے ختم قرآن، کلمہ خوانی اور درس قرآن کی محفل ضرور منعقد کروانا۔ میرے مرنے کے بعد مجھے لا وارثوں کی طرح مت چھوڑدینا۔ اس کے بعد بھی جو پیسے بچیں گے وہ کسی مسجد یا مدرسے میں لگوا دینا۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ آپ وفات کے بعد آپ کی ہر چیز کی مالک آپ کی بیٹی ہوگی جوکہ آپ کی شرعی اور قانونی وارث بھی وہی ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر تو آپ یہ پیسہ کسی بھی کام نہیں لگایا جاسکتا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ اچھا پھر جو صحیح بات کام ہوتا ہو وہی کر دینا۔
الغرض عمرے کے اخراجات کے برابر تو ان کی رقم جمع نہ ہو سکی البتہ پھر بھی ایک معقول رقم ان کی میرے پاس جمع ہوگئی۔ میرے عزیز و اقرباء مجھ سے رقم کی تعداد کے بارے میں پوچھتے ہیں، جو کہ میں نے ابھی انہیں نہیں بتائی ہے لیکن میرے گھر والوں کو اس کا علم ہے۔
اب یکم نومبر 2010 کو مختصر سی علالت کے بعد اس کا انتقال ہو گیا ہے۔ اس وقت تو ان کی تدفین کے اخراجات ان کے بھانجوں نے یعنی میرے بھائیوں نے کر دیے ہیں۔
1۔ کیا ان کی ملکیت کی ہر چیز ان کا ورثہ ہے؟
2۔ ان کے ورثہ کی حقیقی مالک کون کون ہیں؟ جبکہ ان کے سوگوار ان میں ان کی ایک عدد بیٹی، اس کا شوہر اس کے تین عدد بچے، ایک بیوہ بہو اورا ن کی دو عدد پوتیاں جو کہ شادی شدہ ہیں۔ موجود ہیں۔
3۔ کیا ان کی وفات کے بعد ان کی اس وصیت کی کوئی اہمیت ہے یا نہیں؟ جبکہ یہ ساری گفتگو ان کے اور میرے درمیان زبانی ہوئی ہے۔ اور اس کا کوئی گواہ بھی نہیں ہے ، نہ کوئی تحریر ہے۔ جبکہ میں اکثر ان سے کہتی تھی کہ اپنی یہ وصیت لکھدیں تاکہ ثبوت رہے تو وہ جواب میں حامی بھر لیتی تھی۔ لیکن ان کی زندگی نے وفا نہ کی۔ اور وہ اس بات پر عمل نہ کر سکی۔
4۔ کیا مرحومہ کے ایصال ثواب کے لیے گھر میں ہفت روزہ عورتوں کا اجتماع کر کے قرآن خوانی کروانا، کلمہ خوانی، سورہ یسین، سورہ ملک یا کسی اور سورہ کا پڑھوا نا یا درس قرآن کروانا جائز ہے یا نہیں؟ اگر جائز ہے تو مرحومہ کے اپنے پیسوں میں سے ان محافل کا خرچہ کیا جائے( جو کہ ان کی نصیحت / وصیت تھی) یا مجھے اپنے پاس سے کروانا ہوگا۔
5۔ اس کے علاوہ اگر یہ ہفت روزہ محافل کروانا جائز ہے تو کتنے عرصے تک یا کتنی تعداد میں یہ محافل منعقد کی جائیں۔ اس کے علاوہ کیا چالیسویں کی محفل کرنا جائز ہے یا نہیں؟
6۔ اس کے بعد ان کے بچے ہوئے باقی پیسوں کا کیا کیا جائے؟
مہربانی فرما کر تمام حالات کی روشنی میں مندرجہ بالا سوالات کا انفرادی اور تفصیلی جواب دیجئے۔ یہ میری خالہ مجھ پر یہ بہت بڑی ذمہ داری ڈال گئی ہیں۔ میں جلد از جلد اس ذمہ داری سے سبکدوش ہو نا چاہتی ہوں۔ اور میں اس بات سے بہت خوفزدہ ہوں کہ مرحومہ کا ایک پیسہ بھی میری طرف سے نہ رہ جائے اور میں روز محشر ایک پیسہ کی بھی مقروض بن کر ان کے سامنے نہ آؤں۔
اس وقت جبکہ میں یہ تحریر لکھ رہی ہوں خوف سے کانپ رہی ہوں کہ کہیں کوئی دنیا والا ہی مجھ پر کوئی الزام نہ لگا دے ۔ یا اللہ کے گھر میرے پکڑنہ ہو جائے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں*** کے کل ترکہ میں سے ایک تہائی مال ان کے وصیت کے طور پر علیحدہ کر لیا جائے۔ اور ایک تہائی کو مسجد یا مدرسے میں لگوا دیا جائے۔ محفل نعت اور قرآن خوانی پر خرچ نہ کیا جائے کیونکہ یہ چیزیں شریعت کی نظر میں جائز نہیں ہیں اور ناجائز کاموں کے متعلق وصیت کو پورا کرنا درست نہیں۔
باقی دو تہائی مال ان کے میراث جوان کی ایک بیٹی اور دوپوتیوں کے درمیان اس طرح تقسیم ہو گا کہ کل مال کے آٹھ حصے کیے جائیں جن میں سے چھ حصے بیٹی کو جبکہ ایک ایک حصہ ہر پوتی کو ملے گا۔
4×2=8
بیٹی 2 پوتیاں
3+2 1×2
6 2
و في السراجية: ص 27، باب الرد: و الثاني إذا اجتمع في المسئلة جنسان أو ثلثة أجناس ممن يرد عليه عند عدم من لا يرد عليه فاجعل المسئلة من سهامهم أعني من اثنين إذا كان في المسئلة سدسان أو من ثلثة إذا كان فيها ثلث و سدس أو من أربعة إذا كان فيها نصف و سدس. فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved