- فتوی نمبر: 30-397
- تاریخ: 04 جولائی 2023
- عنوانات: عبادات
استفتاء
شادی کے موقع پر بارات کو رخصت کرتے وقت لڑکے (دولہا) والے لڑکی والوں کو کچھ رقم دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ آدھی رقم مسجد کے لیے اور آدھی رقم مدرسے کے لیے ہے اور اکثر و بیشتر نکاح شادی ہال میں ہوتے ہیں ، وہاں سے قریب فاصلہ پر بھی مساجد و مدارس ہوتے ہیں جبکہ لڑکی والوں کا تعلق دوسرے گاؤں سے ہوتا ہے جن کی مسجد اور مدرسہ شادی ہال والوں سے الگ ہوتا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ
1۔ یہ پیسے کس مسجد و مدرسہ کو دیے جائیں؟
2۔ جس مدرسے میں رہائش پذیر مسافر طلباء و طالبات رہتے ہیں وہاں دینے چاہیئں یا پھر گاؤں محلہ کا وہ مدرسہ جس میں صبح و شام حفظ و ناظرہ قرآن کی تعلیم اور درس نظامی کی تعلیم دی جاتی ہے جبکہ طلباء غیر رہائشی ہیں وہاں دینے چاہیئں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جو مسجد اور مدرسہ لڑکی والوں کی رہائش کے زیادہ قریب ہو اس مسجد اور مدرسہ میں دئیے جائیں گے، خواہ اس قریبی مدرسے میں رہائشی طلباء و طالبات ہوں یا نہ ہوں ، کیونکہ عرف میں لڑکے والوں کی غرض یہی ہوتی ہے اور چندے کو معطی( چندہ دینے والے) کی غرض کے موافق ہی خرچ کرنا چاہئے۔
فتاوی شامی (4/ 445) میں ہے:
فإذا أطلقها الواقف انصرفت إليها لأنها هي الكاملة المعهودة في باب الوقف، وإن كان الكامل عكسها في باب الصدقة فالتسوية بينهما غير صحيحة، على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة، وصرح الأصوليون بأن العرف يصلح مخصصا
فتاوی شامی(4/433) میں ہے:
شرط الواقف كنص الشارع أي في المفهوم والدلالة
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved