• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

شرکت وجوہ کی ایک صورت

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیافرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں :

ہم تین شرکاء نے 1991ء  میں ایک کاروبار شروع کیا ہمارے پاس کوئی سرمایہ نہیں تھا ہم نے آپس میں ایک زبانی معاہدہ کیا کہ ہم تینوں شرکاء کام کریں گے ،بادامی باغ مارکیٹ سے آٹو پارٹس کا سامان ادھار خرید کر آگے فر وخت کریں گے ۔فروخت کرنے کے بعد قیمت کی ادائیگی اور کاروباری اخراجات نکال کرخالص نفع تین حصوں میں تقسیم کرکے آپس میں برابر بانٹیں گے اگر خدانخواستہ نقصان ہو گیا تو وہ بھی آپس میں برابر برابر تقسیم کریں گے۔

اس معاہدے کے مطابق ہم نے کاروبار شروع کیا اور مارکیٹ سے ادھار سامان خرید کر آگے بیچتے رہے اور نفع آپس میں تقسیم کرتے رہے کچھ عرصہ کے بعد نفع زیادہ آنا شروع ہو گیا تو ہم نے آپس میں یہ طے کیا جس کو گھر کے اخراجات کے لیے جتنی رقم کی ضرورت ہو وہ ہر ماہ اتنی رقم نکالا کرے باقی نفع کاروبار میں ہی رہنے دے اس کو پروفٹ بیلنس کا نام دیا گیا لیکن اس پروفٹ بیلنس کو الگ نہیں کیا جاتا تھابلکہ کاروبار میں ہی رہنے دیا جاتا تھا ۔پروفٹ بیلنس میں ایک شریک نے اپنے نفع سے چالیس ہزار روپے منتقل کردیئے یعنی اگر پچاس ہزار اس شریک کا نفع بنتا تھا تو دس ہزار نکال کرباقی چالیس ہزار پروفٹ بیلنس میں جمع کیا جبکہ باقی شرکاء نے اپنے پچاس ہزار نفع پورا نکال لیا اس لیے کچھ عرصہ بعد مشورہ سے دوسرے شرکاء کانفع بھی پروفٹ بیلنس سے منتقل کرکے سارے شرکاء کا حصہ برابربرابر کردیا گیا۔اس کے بعد کام چلتا رہا تو ہم نے کہا کہ پروفٹ بیلنس میں اور نفع بھی شامل کیا جائے۔لہذاکچھ نفع اور بھی اس میں انوسٹ کیا گیا تو ہر شریک کے پروفٹ بیلنس میں 90 ہزار روپے انوسٹ کئے گئے لیکن تقریبا یہ 1999کی بات ہے اس کے بعد پھر کسی کا زیادہ نفع اور کسی کا کم نفع شامل ہوتا رہا یعنی کوئی نفع کم نکالتا کوئی زیادہ نکالتا۔اس کے بعد ہر ماہ اپنی ضرورت کے بقدر نفع سے جو کم یا زیادہ رقم نکالتا وہ لکھا جاتا تھا ۔ہر سال مکمل حساب کیا جاتا تھا اور بتادیا جاتا تھا کہ اس سال ہر شریک کا اتنا نفع بنتا ہے اس میں سے اتنا نفع اپنے اخراجات کے لیے نکالاہے جبکہ دوسرے شرکاء نے بہت کم نکالا اس طرح کاروبار میں ایک شریک کا سرمایہ کم اور دوسرے کا سرمایہ زیادہ ہو گیا۔اب ہم نے یہ طے کر لیا کہ کاروبار تقسیم کیا جائے اور ہر ایک اپنا الگ کاروبار شروع کرے تو جب ہم تینوں کے اثاثوں اور پروفٹ بیلنس کی لیجر شیٹ جمع کرتے ہیں تو وہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ بنتے ہیں لیکن جب تقسیم کے لیے اثاثے دیکھے گئے تو ہمارے پاس پڑا ہو اسامان ،لوگوں پر ادھار رقم کے ساتھ ساری چیزوں کا حساب لگایا گیا تو اس ساری چیزوں کا حساب 60سے 70لاکھ بنتا ہے ۔اب ہم کہتے ہیں کہ 70لاکھ تو موجود ہے بقایا 90لاکھ کہاں گئے؟ اب نقصان کو بھی نکالا جائے تو وہ بھی 90لاکھ تو نہیں ہو گابلکہ50لاکھ تک ہوگانیز ہمارے پاس سامان خریدنے اوربیچنے کی رسیدیں اور ریکارڈ موجود نہیں ہے البتہ جس نے جو رقم نکالی ہے اس کا ریکارڈ تحریری شکل میں موجود ہے کہ کس نے کتنی رقم نکالی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ موجودہ اثاثے اور رقم وغیرہ کو کیسے تقسیم کیا جائے؟کیا تینوں شرکاء میں برابر برابر تقسیم کیا جائے ؟حالانکہ کسی نے نفع زیادہ اور کسی نے کم نکالا ہے تو اس میں کم نفع نکالنے والے شریک کا نقصان ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت شرکت وجوہ کی ہے جس میں نفع کاحساب کتاب تو رکھا گیا لیکن اسے مکمل طور پر تقسیم نہیں کیا گیا بلکہ ہرشریک علی الحساب کم وبیش خرچہ لیتا رہا لہذا اب موجودہ کل اثاثہ جات اور رقم کو تینوں شرکاء میں برابر تقسیم کریں گے ۔اور جو شریک دوسرے کی نسبت زائد رقم لے چکا ہے وہ اس کے حصے میں منفی کرکے باقی حصہ اسے دیدیا جائے گا۔اس طرح کل اثاثہ جات تینوں شرکاء میں برابر تقسیم ہو جائیں گے

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved