• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

شوہر کی نیت کا اعتبار

استفتاء

گھر میں جھگڑے پر میں نے زوجہ کو ایک طلاق دینے کا ارادہ کیا۔ ہمارے ایک عزیز نے مشورہ دیا کہ طلاق بذریعہ وکیل بھیجی جانی زیادہ مناسب ہے، وکیل نے کاغذات تیار کیے اور میں نے ان پر دستخط کرنے سے پہلے وکیل سے کہا کہ یہاں تو تین طلاقیں لکھی ہوئی ہیں اور میں تو تین طلاقیں دینا نہیں چاہتا ہوں۔ اس پر وکیل نے کہا کہ فی الحال تو ایک طلاق بھی واقع نہیں ہو گی، البتہ جب 90 دن گذر جائیں گے تو یہ طلاق واقع ہوں گی، اس سے قبل اگر آپ رجوع کرنا چاہیں تو آپ کی بیوی ہے، رکھ سکتے ہیں۔

اس توضیح پر میں نے دستخط کر دیے اور جن حضرات کے سامنے میں نے ایک طلاق کے ارادے کا اظہار کیا تھا ان کی گواہی ذیل میں  درج ہے۔

نوٹ: دستخط کرنے سے پہلے صرف ایک ہی طلاق دینے کا ارادہ تھا تین کا نہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں چونکہ شوہر صرف ایک طلاق دینا چاہتا تھا، اور کسی بھی مرحلے پر اس نے تین طلاقوں کا ارادہ نہیں کیا تھا، بلکہ جب تین طلاق کا کاغذ اسے دکھایا گیا تو دستخط کرنے سے پہلے اس نے کہا کہ "میں تو تین طلاقیں دینا نہیں چاہتا”۔ اس پر وکیل نے کہا کہ "فی الحال تو ایک بھی طلاق نہیں ہو گی …… الخ”. اور شوہر کے بقول اس وضاحت پر اس نے دستخط کر دیے اور اس بات کے گواہ بھی موجود ہیں، تو ایسی صورت حال میں شوہر سے قرآن پاک پر حلف لیا جائے، اگر وہ حلف دے دے تو ایک طلاق شمار ہو گی ورنہ تین طلاقیں شمار ہوں گی۔

وجہ یہ ہے کہ یہ تحریری طلاق ہے، اور تحریری طلاق میں اتنا اطلاق نہیں ہوتا جو زبانی میں ہوتا ہے۔ رہی بات جہالت کے عذر نہ ہونے کی تو جو بات ملک کے قانون کی حیثیت سے رائج ہو اور متعلقہ سرکاری دفتر سے اس کی ہدایت کی جا رہی ہو توہر ہر عامی شخص تمیز کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved