- فتوی نمبر: 28-318
- تاریخ: 03 مارچ 2023
- عنوانات: مالی معاملات > شرکت کا بیان
استفتاء
T.S ***میں واقع ایک کاسمیٹک اسٹور ہے، جہاں پر کاسمیٹک سے متعلق سامان کی ریٹیل اور ہول سیل کے اعتبار سے خرید و فروخت کی جاتی ہے۔
T.S کے مالکان کی جانب سے سال کے آخر میں پورے کاروبار کی کلوزنگ کی جاتی ہے، جس کے بعد تمام شرکاء کے سامنے کاروبار میں نفع ،نقصان سامنے آجاتا ہے، اس کے بعد شرکاء اپنے اپنے حصوں کے اعتبار سے نفع کو تقسیم کر لیتے ہیں، لیکن اس کو وصول نہیں کرتے، بلکہ اس نفع کی رقم کو دوبارہ اسٹور کے کاروبار میں انویسٹ ( شامل )کر دیتے ہیں نیز شرکاء کے درمیان یہ معاہدہ ہے کہ سرمایہ تمام شرکاء کا برابر ہی ہوگا کسی بھی شریک کو کاروبار میں سرمایہ کا تناسب بڑھانے کی اجازت نہیں تاکہ نفع بھی سہولت کے ساتھ برابر تقسیم ہواور کوئی جھگڑے کی صورت پیدا نہ ہو اس وجہ سے تمام شرکاء روز مرہ کے بنیادی اخراجات بھی ہر ماہ برابر وصول کرتے ہیں اور سال کے آخر میں نفع کوبھی برابر ہی کاروبار میں شامل کرتے ہیں ۔
T.S چار بھائیوں کا مشترکہ کاروبار ہے، اس کاروبار سے شرکاء کا روز مرہ کے اخراجات لینے کا طریقہ کار یہ ہے کہ شرکاء اپنے آپ کو اسٹور کا ملازم سمجھ کر طے شدہ ماہانہ تنخواہ وصول کرتے ہیں، جس کے ذریعہ سے وہ اپنے روز مرہ کے اخراجات کو پورا کرتے ہیں۔
اگر لوگوں کو یہ بتا یا جائے کہ اس اسٹور میں کاروبار کا فلاں مالک ہے تو لوگ اس کے پاس چندہ مانگنے کے لیے بہت زیادہ آنے لگتے ہیں اس لیے کسی کو مالک بتانے کی جگہ یہ کہا جاتا ہے کہ ہم سب دکان کے ملازم ہیں ۔
- کیا نفع کی تقسیم کا طریقہ کار درست ہے؟
- کیا شرکاء کا کاروبار سے روز مرہ کے اخراجات تنخواہ کی مد میں لینا درست ہے؟
- کیا مصلحتا اپنے آپ کو دکان کا ملازم کہا جاسکتا ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔نفع کی تقسیم کامذکورہ طریقہ کار درست ہے ،اسی طرح نفع وصول کرنے کے بجائے اسکو دوبارہ کاروبار میں لگانا بھی درست ہے۔
۲۔ کاروبار میں شریک افراد کا کاروبار سے روز مرہ کے اخراجات تنخواہ کی مد میں لینا درست ہے۔
۳۔ مذکورہ صورت میں چونکہ آپ سب برابر کے مالک ہیں اور سب کے سب دکان میں کام بھی کررہے ہیں اس لیے اپنے آپ کو دکان کا یا ایک دوسرے کا ملازم کہنا درست نہیں ۔
البدائع والصنائع(۶/۶۲)
إذا شرطا الربح على قدر المالين متساويا أو متفاضلا، فلا شك أنه يجوز ويكون الربح بينهما على الشرط سواء شرطا العمل عليهما أو على أحدهما والوضيعة على قدر المالين متساويا ومتفاضلا؛ لأن الوضيعة اسم لجزء هالك من المال فيتقدر بقدر المال۔
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع(۶/۵۶)
أما الأول:وھو الشرکۃ بالأموال:فھو أن یشترک اثنان فی رأس المال،فیقولان اشترکنا فیہ،علی أن نشتری ونبیع معا،أو أطلقا علی أن ما رزق اللہ عزوجل من ربح،فھو بیننا علی شرط کذا،أو یقول أحدھما:ذلک ویقول الآخر:نعم۔
المغنی لابن قدامۃ(۷/۱۷۲)
إذا اقتسما الربح، ولم یقبض رب المال رأس مالہ، فأکثر أھل العلم یقولون: یرد العامل الربح حتی یستوفی رب المال مالہ۔ ولنا علی جواز القسمۃ، أن المال لھما، فجاز لھما أن یقتسما بعضہ،کالشریکین۔ أو نقول: إنھماشریکان، فجاز لھما قسمۃا لربح قبل المفاصلۃ، کشریکی العنان۔
المعاییر (۱۱،۱۲/۵)
یجوز توزیع مبالغ تحت الحساب،قبل التنضیض الحقیقی أو الحکمی۔علی أن تتم التسویۃ لاحقا مع الالتزام برد الزیادۃ عن المقدار المستحق فعلا بعد التنضیض الحقیقی أو الحکمی،إذا کانت الشرکۃ محلھا موجودات مقتناۃ للتأجیر (مستغلات)تحقق غلۃ،أو خدمات تحقق إیرادا،فإن مایوزع من عائدھاالدوری علی الشرکاء یعد مبلغا تحت الحساب ویکون خاضعا للتسویۃ النھائیۃ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved