- فتوی نمبر: 14-265
- تاریخ: 18 جون 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > پردے کا بیان
استفتاء
میری بیٹی فاطمہ شکور (فرضی نام)دسویں میں پڑھتی ہے ۔وہ دریافت کر رہی ہے کہ سکول کے جو نامحرم مرد اساتذہ کرام ہیں، انہیں سلام کرنا یا ان کے سلام کا جواب دینا جائز ہے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں طالبہ اپنے نامحرم اساتذہ کو سلام کرسکتی ہے اور اگر وہ سلام کریں تو ان کے سلام کا جواب بھی دے سکتی ہے ۔کیونکہ جوان لڑکی کا غیر محرم کو سلام کرنا یا غیر محرم کے سلام کا اونچی آواز سے جواب دینا اس صورت میں ممنوع ہے جب سلام کی کوئی معقول وجہ نہ ہو( یعنی آپس میں کوئی جان پہچان یارشتہ داری یاتعلق داری نہ ہو اور نہ کوئی اور جائز کام کے سلسلے میں گفتگوہو)بلکہ سلام برائے سلام ہو ۔اساتذہ کو سلام کرنے یا ان کے سلام کا جواب دینے کی صورت اس میں داخل نہیں۔
حاشية ابن عابدين (6/ 369)
قال في الخانية وكذا الرجل مع المرأة إذا التقيا يسلم الرجل أولا وإذا سلمت المرأة الأجنبية على رجل إن كانت عجوزا رد الرجل عليها السلام بلسانه بصوت تسمع وإن كانت شابة رد عليها في نفسه وكذاالرجل إذا سلم على امرأة أجنبية فالجواب فيه على العكس اه۔
مصنف ابن ابی شیبة:21/274
حفص عن عمرو عن الحسن انه کان لایری ان یسلم علی المرأة الاان یدخل فی بیتها فیسلم علیها۔
صحيح البخاري: (5/ 15)
انطلق إلى عائشة أم المؤمنين فقل يقرأ عليك عمر السلام ولا تقل أمير المؤمنين فإني لست اليوم للمؤمنين أميرا وقل يستأذن عمر بن الخطاب أن يدفن مع صاحبيه فسلم واستأذن ثم دخل عليها فوجدها قاعدة تبكي فقال يقرأ عليك عمر بن الخطاب السلام
© Copyright 2024, All Rights Reserved