• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ادھار بیع میں مدت کی تعیین

استفتاء

ہمارا سکیم موڑ ***روڈ پر لوہے کی خرید و فروخت کا کام ہے، ہم تقریباً لوہا مارکیٹ اور فیکٹریوں سے عمارتی لوہا جو گیٹ کھڑکیوں اور جنگلوں وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے، خریدتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے ویلدنگ والوں کو فروخت کرتے ہیں۔ کچھ مال ادھار فروخت کرتے ہیں۔ جس میں قیمت کی ادائیگی کی کوئی تاریخ مقرر نہیں ہوتی، بلکہ اگر ہم کوئی تاریخ مقرر کر نے کو کہتے ہیں تو گاہک کہتا ہے کہ "جب ہم روپے ملیں گے تو دے دیں گے”، کوئی تاریخ مقرر نہیں کرتے۔ کیا ہمارا اس طرح بیع کرنا جائز ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ضابطہ یہ ہے کہ بیع کے معاہدے کے اندر اگر ادھار کا ذکر ہو، یعنی کوئی کہے کہ "ہمیں ادھار دے دو” تو ادھار کی مدت کی تعیین ضروری ہے۔ اور اگر بیع کے معاہدے میں ادھار کا ذکر نہ ہو بلکہ بیع مطلق کی گئی ہو، مثلاً گاہک نے کہا کہ "ہمیں اتنا لوہا دے دو” اور دکاندار نے دے دیا، اس کے بعد گاہک نے مدت کی بات کی تو یہ بیع ادھار شمار نہ ہو گی، لہذا مدت کے ذکر کے بغیر بھی جائز ہو گی اور دکاندار کو کسی بھی وقت مطالبہ کا حق حاصل ہو گا۔

چونکہ آج کل عام طور سے بیع میں ایجاب و قبول کے اندر ادھار کا ذکر نہیں ہوتا، بلکہ مطلق بیع کی جاتی ہے لہذا مذکورہ صورت سے خرید و فروخت جائز ہے۔

(و صح بثمن حال) و هو الأصل (و مؤجل إلی معلوم) لئلا يفضي إلي النزاع. (الدر المختار)

(و هو الأصل) لأن الحلول مقتضی العقد و موجبه، و الأجل لا يثبت إلا بالشرط. (رد المحتار)

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved