• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

عمره سے بغیر حلق کے آنے والے کے لیے حلال ہونے کا طریقہ

استفتاء

جب عمرہ کیا  اور  سر کے بالوں  کو نہ چوتھائی کاٹا نہ حلق کرایا۔ اور اس آدمی پر دم آگیا  آدمی نے دم ادا نہ کیا اور حرم مکہ سے چلا گیا کیا اس دم والے آدمی پر بیوی حلال ہوگی یا نہیں  ؟ اگر بیوی حلال ہوگی  یا نہیں ہوگی اس میں  کسی معتبر حدیث  کی یا فقہ کوئی معتبر کتاب  کا حوالہ چاہیے؟

نوٹ: سائل کو زبانی بتا دیا ہے، ان سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ ان کے ذہن میں یہ ہے کہ حلق تو صرف حرم کے  اندر  ہوتا ہےلہٰذا جب وہ وہاں سے واپس آگیا ہے تو اب حلال ہونے کا کیا طریقہ ہوگا؟ کیا یہاں حلق يا قصر  کروانے  اور دم دینے سے حلال  ہوجائے گا؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں جب تک یہ آدمی چوتھائی سر کا حلق نہیں کرائے گا یا ایک پورے کی مقدار چوتھائی سر کا قصر نہیں کرے گا اس کی  بیوی اس کے لیے حلال نہ ہوگی کیونکہ جب تک حلق یا قصر نہیں کریں گے عمرے کے احرام سے نہیں نکلیں گے۔ لہٰذا مذکورہ  صورت میں اس آدمی کے لیے حکم یہ ہے کہ (اگرچہ وہ واپس بھی آگیا ہو) کہ وہ قصر یا حلق کرائے اور حرم میں ایک دم بھی دے۔ یہاں پر دم دینا کافی نہ ہوگا۔

غنیۃ الناسک(175) میں ہے:

ويختص حلق الحاج بالزمان والمكان عند أبى حنيفة، وحلق المعتمر بالمكان، فالزمان أيام النحر الثلاثة، والمكان الحرم، والتخصيص للتضمين، لا للتحلييل، فلو حلق أو قصر فى غير ما توقت له به لزمه الدم ولكن يحصل به التحلل فى أى مكان وزمان أتى به بعد دخول وقته وأول وقت صحة الحلق فى الحج طلوع فجر يوم النحر، ووقت ………….. ولا آخر له فى حق التحلل، وأول وقت الصحة فى العمرة بعد اكثر طوافها، وأول حله بعد السعى لها. وأول وقت حله فى المحصر بعد ذبح الهدى فى الحرم.

غنیۃ الناسک(279) میں ہے:

لو حلق فى الحل (خارج الحرم) للحج أو العمرة أو لكليهما فعليه دم عندهما وقد تحلل……………. الخ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved