- فتوی نمبر: 27-235
- تاریخ: 18 ستمبر 2022
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
آج کل پرائیوٹ کالجوں میں لڑکے ،لڑکیاں ساتھ بیٹھتے ہیں،لڑکوں کو میم اور لڑکیوں کو مرد پڑھاتے ہیں،لباس بھی غیر شرعی یعنی پینٹ،شرٹ ہے جوکہ یہود و نصاریٰ کا لباس ہے اور سزا کے طور پر جرمانہ لیا جاتا ہےجبکہ جسمانی سزا میں حد سے زیادہ مارا جاتا ہے جوکہ تشدد کے زمرے میں آتا ہے۔ ایسے نظام تعلیم سے منسلک ٹیچرز بھی استاد یعنی روحانی باپ کا درجہ رکھتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
وہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے جو اپنے شاگردوں کےدینی ودنیوی امور کی بہتری کے لیے اپنی ہمت کے مطابق کوشاں ہو کیونکہ یہ بات آپ ﷺنے آداب استنجاء سکھلانے سے پہلے فرمائی تھی کہ ’’میں تمھارے لیے باپ کی طرح ہوں ،میں تمہیں (دین کی باتیں ) سکھاتا ہوں۔
شارحین نے اس حدیث کی شرح میں ’’باپ کی طرح ہونے ‘‘کی تشریح اس طرح کی ہےکہ جس طرح ایک باپ اپنی اولاد کی دینی و دنیوی بہتری کی خاطر اپنی پوری طاقت خرچ کرتا ہے ،اسی طرح آپ ﷺ بھی امت کی دینی و دنیوی امور کی بہتری کے لیے اپنی ہمت کے مطابق کوشاں تھے ۔ اس بنیاد پر جو استاد اپنے شاگردوں کے دینی و دنیوی امور کی بہتری کے لیے اپنی ہمت کے بقدر کوشش کرے گا وہ روحانی والد کے زمرے میں آئے گا ،اور جو استاد ایسا نہیں کرے گا وہ روحانی والد کے زمرے میں نہیں آئے گا۔
سنن ابی داؤد(1/3)میں ہے:
عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إنما أنا لكم بمنزلة الوالد، أعلمكم فإذا أتى أحدكم الغائط فلا يستقبل القبلة، ولا يستدبرها ولا يستطب بيمينه، وكان يأمر بثلاثة أحجار، وينهى عن الروث والرمة
بذل المجہود فی حل سنن أبی داود (1/ 191) میں ہے:
(قال: قال رسول الله): إنما أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم) كلام تأنيس، كما أن الوالد يؤدّب ولده ، كذلك أنا أعلمكم أمور دينكم وأؤدبكم بآداب الشرع. (فإذا أتى أحدكم)……
تفسیر روح المعانی(11/210)میں ہے:
وقال الراغب بعد أن قال الأب الوالد ما نصه: ويسمى كل من كان سببا في إيجاد شيء أو إصلاحه أو ظهوره أبا ولذلك سمي النبي صلّى الله عليه وسلم أبا المؤمنين قال الله تعالى النبي أولى بالمؤمنين من أنفسهم وأزواجه أمهاتهم
الایجاز فی شرح سنن ابوداودللنووی میں ہے:
«قوله – صلى الله عليه وسلم -: "إنما أنا لكم بمنزلة الوالد أعلمكم”، قيل فيه ثلاثة أقوال:
أحدهما: قول الخطابي: "إنه كلام بسط وتأنيس لهم لئلا يحتشموه في السؤال عمّا يحتاجون إليه في أمر دينهم.
ومعناه: لا تستحيوا من سؤالي عمّا تحتاجون إليه كما لا تستحيون من الوالدين، وأنا لا أستحييكم في ذلك كما لا يستحيي الوالد من ذكر ذلك لولده.
والثاني: بمنزلة الوالد في الشفقة عليكم، والاعتناء بمصالحكم في الدين والدنيا، وبذل الوسع في ذلك كما يفعل الوالد.
والثالث: إنه بمنزلة الوالد في المعنيين جميعًا.
والرابع: إن ذلك من باب التمهيد بكلامٍ بين يدي المقصود لا سيما في ما يُسْتَحْيىَ منه في العادة.
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved