• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

اساتذہ کی طرف سے طالب علم پر کوئی مالی جرمانہ عائد کرنا

استفتاء

*** میں طلباء سے تاخیر سے آنے پر یا کسی دوسری وجہ سے کوئی جرمانہ وغیرہ نہیں لیا جاتا۔ البتہ بعض اوقات کوئی ٹیچر اپنے طور پر ٹیسٹ وغیرہ میں فیل ہونے پر یا ٹیسٹ نہ دینے پر یا تاخیر سے آنے پر کوئی جرمانہ رکھ دیتے ہیں تاکہ طلباء ان امور کو زیادہ اہمیت دیں۔ اس صورت میں جو رقم جمع ہوتی ہے اس سے طلباء ہی کے کچھ کھانے پینے کا بندوبست کر لیا جاتاہے۔ لیکن یہ اساتذہ کا ذاتی فعل ہوتا ہے*** کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ کیا استاد کا یہ طرز عمل شرعاً درست ہے؟

تنقیح: کیا ***کو یہ عمل بند کرنے کا اختیار ہے؟

جواب تنقیح: اگر شرعا جائز نہ ہوا تو کالج کی جانب سے بند بھی کیا جا سکتا ہے اساتذہ کو منع بھی کیا جا سکتا ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

طلبہ کو اسکول کے قواعد و ضوابط کا پابند بنانا درست ہے، اور تعلیمی ماحول کو برقرار رکھنے کے لیے یہ ضروری بھی ہے، لیکن ڈسپلن برقرار رکھنے کی خاطر کسی پر مالی جرمانہ عائد کرنا درست نہیں، لہٰذا اسکول انتظامیہ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اساتذہ کرام کو اس بات کا پابند بنائے کہ وہ طالب علموں سے مالی جرمانہ وصول نہ کریں، بلکہ ڈسپلن برقرار رکھنے کے لیے کوئی اور حکمت عملی اختیار کریں مثلاً حسب صوابدید حاضری کی پابندی کرنے والے اور امتحانات میں اچھے نمبرات حاصل کرنے والے طالب علموں کے لیے کسی خاص انعام کا اعلان کیا جائے یا داخلہ  فیس میں مناسب رعایت کا پیکج دیا جائے۔ یا جس طالب علم سے جرمانہ لیا ہے اسے ہی کسی بھی شکل میں واپس کر دیا جائے۔

البحر الرائق (٥/٦٦) داراحیاء التراث:

وأفاد في البزازیة أن معنی التعزیر بأخذ المال علی القول به إمساک شیء من ماله عنه مدة لینزجر ثم یعیده الحاکم إلیه لا أن یأخذه الحاکم  لنفسه أو لبیت المال کما یتوهمه الظلمة إذ لا یجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعي وفي المجتبی لم یذکر کیفیة الأخذ وأری أن یأخذها فیمسکها فإن أیس من توبته یصرفها إلی ما یری وفي شرح الآثار: التعزیر بالمال کان في ابتداء الإسلام ثم نسخ.والحاصل أن المذهب عدم التعزیر بأخذ المال. فقط و الله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved