- فتوی نمبر: 8-289
- تاریخ: 19 فروری 2016
- عنوانات: عبادات > حج و عمرہ کا بیان
استفتاء
محترم و مکرم حضرت ……………………… صاحب دامت برکاتہم العالیہ
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
امید ہے کہ مزاج بخیر و عافیت ہوں گے۔
بعد از سلام مسنون عرض ہے کہ
منسلکہ استفتاء کے جواب کے بارے میں آنجناب کی رائے عالی مطلوب ہے۔ بالخصوص ’’فقہ شافعی ؒ ‘‘ والے مسئلے سے متعلق، کہ اس مخصوص صورت حال میں ایسی عورت کو اس پر عمل کی اجازت دی جا سکتی ہے یا نہیں؟
امید ہے کہ اپنی رائے عالی سے آگاہ فرما کر ممنون فرمائیں گے۔
ایک شخص نے مدینہ منورہ سے واپسی پر حج کا احرام باندھا۔ فوراً ارادہ بدل لیا حج کا احرام ختم کر کے عمرہ کا احرام باندھ لیا۔ یا عمرہ کا احرام پہلے باندھا پھر عمرہ کا احرام فسخ کر کے حج کا احرام باندھ لیا۔ کیا اس طرح کرنا جائز ہے؟ اور پہلے احرام کو ختم کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صرف نیت بدل لی، خلاف احرام کوئی کام نہیں کیا۔ اگر کسی نے ایسا کر لیا تو کیا حکم ہے؟([1])
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ جس شخص نے مدینہ منورہ سے واپسی پر حج کا احرام باندھا اور پھر صرف حج کا ارادہ بدل کر عمرے کا احرام باندھ لیا تو اگرچہ اس کے لیے ایسا کرنا مناسب نہیں تھا لیکن ایسا کرنے سے اس کا حج کا احرام ختم نہ ہوگا بلکہ یہ ایک احرام پر دوسرا احرام باندھنا شمار ہو گا، جس کی وجہ سے ایسا شخص قارن (یعنی حج و عمرہ کا احرام باندھنے والا) شمار ہو گا۔
2۔ اسی طرح جس شخص نے پہلے عمرے کا احرام باندھا اور پھر عمرے کا ارادہ بدل کر حج کا احرام باندھ لیا تو ایسا کرنے میں کچھ حرج نہیں۔ اور ایسا کرنے سے عمرے کا احرام ختم نہ ہو گا بلکہ یہ بھی عمرے کے احرام پر حج کا احرام باندھنا شمار ہو گا جس کی وجہ سے یہ شخص بھی قارن شمار ہو گا۔
في غنية الناسك (1/ 231):
رفض الإحرام لا يحصل بالقول و لا بالنية بل بفعل شيء من محظورات الإحرام مع نية الرفض به إذا كان مأمورا بالرفض و إلا لا يحصل به.
[1] ۔ مذکورہ بالا مسئلے کا دوسرا جواب
مذکورہ صورت میں یہ دونوں صورتیں حج یا عمرے کے احرام کو فسخ کرنے کی نہیں ہیں اور نہ ہی محض ارادہ بدلنے سے حج یا عمرے کا احرام ختم ہو گا، بلکہ یہ احرام پر احرام باندھنے کی صورتیں ہیں، جس کی وجہ سے یہ شخص ’’قارن‘‘ شمار ہو گا۔ البتہ پہلی صورت یعنی حج کے احرام پر عمرے کا احرام باندھنا غیر مناسب ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
و في الفتاوى الهندية (1/ 254):
و كذلك بناء أعمال العمرة على أعمال الحج بدعة و أما بناء إحرام الحج على إحرام العمرة فليس بدعة.
و في الفقه الإسلامي (3/ 2196):
من أهل بالحج ثم أحرم بالعمرة لزمه الاثنان لأن الجمع بينهما مشروع في حق الآفاقي فيصير قارناً لكنه أخطأ السنة فيصير مسيئاً.
و فيه أيضاً (3/ 2196):
إذا أحرم المكي بعمرة فأدخل عليها إحرام حجة فهناك ثلاثه احتمالات: إما أن يدخله قبل أن يطوف فترتفض عمرته اتفاقاً بين أئمة الحنفية و لو فعل هذا آفاقي (غير مكي) كان قارناً. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved