- فتوی نمبر: 8-332
- تاریخ: 21 مارچ 2016
- عنوانات: عبادات > روزہ و رمضان
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں رمضان میں سفر سے واپس آیا۔ سفر کی تفصیل یہ ہے کہ روزہ رکھ
کر پاکپتن سے رائیونڈ اور پھر اسی وقت رائیونڈ سے لاہور گھر میں آیا، جب میں گھر پہنچا تو میری طبیعت بہت خراب ہو گئی، نزلہ زکام اور سانس کا مسئلہ تھا، چنانچہ میری والدہ نے مجھے پانی ابال کر اس میں ویکس ڈال کر بھاپ لینے کو کہا، تو میں نے بھاپ لے لی، اس کے اگلے دن مجھے معلوم ہوا کہ میرا روزہ ٹوٹ گیا ہے۔ اس وقت بس مجھے یہ معلوم ہوا کہ روزہ ٹوٹا ہے آگے قضا اور کفارہ دونوں آئیں گے یا صرف قضا آئے گی یہ معلوم نہ ہوا، تاہم میں نے اس روزے کی قضاء کر لی ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ اب مجھے کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں؟ جبکہ میری صورت حال اوپر مذکور ہے۔
وضاحتیں: 1۔ سائل کا کہنا ہے کہ جب بھی مجھے نزلہ زکام ہوتا ہے تو سانس میں رکاوٹ بھی شروع ہو جاتی ہے، سائل کا کہنا ہے کہ اگر میں اس وقت بھاپ نہ لیتا تو تکلیف یقیناً بڑھ جاتی۔
2۔ سائل کا کہنا ہے کہ جب میں نے بھاپ لی اس وقت سانس کا مسئلہ اتنا زیادہ نہیں تھا کہ مجھے اپنی ہلاکت کا اندیشہ ہو۔
3۔ سائل کا کہنا ہے کہ میں نے منہ اور ناک دونوں کے ذریعہ سے بھاپ لی تھی۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں آپ کے ذمے اس روزے کا کفارہ نہیں آتا، صرف قضا واجب ہوئی تھی جو کہ آپ نے کر لی ہے۔
مذکورہ صورت میں کفارہ واجب نہ ہونے کی دو وجہیں ہیں:
1۔ آپ نے سفر شرعی کی حالت میں روزہ رکھا اور اقامت کی حالت میں بھاپ لی جس کی وجہ سے آپ کا روزہ ٹوٹ گیا۔ چونکہ مسافر پر سفر کی حالت میں روزہ رکھنا ضروری نہیں ہوتا، اس لیے اگر کوئی مسافر سفر کی حالت میں روزہ رکھ لے اور پھر اقامت کی حالت میں افطار کر لے تو اس پر صرف قضا ہی واجب ہوتی ہے کفارہ واجب نہیں ہوتا۔
2۔ آپ نے روزہ کی حالت میں مرض یعنی سانس میں رکاوٹ کی تکلیف کی وجہ سے ویکس ڈال کر بھاپ لی اور پھر آپ کو یہ بھی یقین تھا، کہ اگر اس حالت میں بھاپ نہ لی تو تکلیف مزید بڑھ جائے گی، تو ایسی حالت میں اگر روزہ افطار کر لیا جائے تو صرف قضا ہی واجب ہوتی ہے، کفارہ واجب نہیں ہوتا۔
مراقی الفلاح (677) میں ہے:
أو أدخل دخاناً بصنعه متعمداً إلى جوفه أو دماغه لوجود المفطر و هذا في دخان غير العنبر و العود و فيهما لا يبعد لزوم الكفارة أيضاً للنفع و التداوي و كذا الدخان الحادث شربه و ابتدع بهذا الزمان.
فتاویٰ عالمگیری (1/ 207) میں ہے:
المريض إذا خاف على نفسه أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع و إن خاف زيادة العلة و امتداده فكذلك عندنا و عليه القضاء إذا أفطر … ثم معرفة ذلك باجتهاد المريض و الاجتهاد غير مجرد الوهم بل هو عليه الظن عن أمارة أو تجربة أو بإخبار طبيب مسلم غير ظاهر الفسق كذا في فتح القدير.
نقايہ (1/ 583) میں ہے:
و حامل و مرضع خافت على نفسها أو ولدها و مريض خاف زيادة مرضه و المسافر أفطروا و قضوا بلا فدية. و في شرح النقاية تحت قوله (و قضوا بلا فدية) إذا أفطروا و لا كفارة عليهم لأنهم أفطروا بعذر.
الدر المختار (3/ 479) میں ہے:
و لكن لا كفارة عليه لو أفطر فيهما للشبهة في أوله و آخره. و في الشامية تحته أي في مسألة المسافر إذا أقام و مسألة المقيم إذا سافر كما في الكافي النسفي…………….. فقط و الله تعالى أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved