• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

والدہ کی قطع تعلقی کی دھمکی کی وجہ سے تحریری طلاق پر انگوٹھالگانےکا حکم

استفتاء

گزارش ہے کہ میں ******* کا  رہائشی ہوں، میری شادی *****سے تقریبا دس ماہ قبل شرع محمدی کے ساتھ ہوئی۔ میری بیوی اڑھائی ماہ کی حاملہ تھی کہ وہ گھریلو لڑائی یعنی میری والدہ سے لڑائی کرکے میکے چلی گئی۔ میں**میں مزدوری کرتا ہوں مگر لڑائی کے وقت میں موجود تھا، میں نے والدہ کو کچھ نہ کہا مگر اپنی بیوی کو سمجھایا لیکن وہ نہ رکی، اس کے بعد میری والدہ نے ضد پکڑ لی کہ اب تم اپنی بیوی کو طلاق دو مگر میں بالکل اس پر تیار نہ تھا، میری والدہ نے شرط رکھ دی کہ یا گھر چھوڑ دو اور ہمارا تمہارا تعلق ختم،یا پھر اپنی بیوی کو طلاق دے دو،میرے لیے والدہ سے تعلق ختم کرنا اور الگ سے گھر کا بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا،  میں بیس پچیس روز تک گاؤں سے شہر جاتا لیکن گھر آکر اپنی والدہ سے کہتا کہ لکھنے والا موجود نہیں تھا، آخر کار انہوں نے میرے بڑے بھائی کو میرے ساتھ بھیجا۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ سائن اور انگوٹھا نہ لگائے تو اسے وہیں چھوڑ آنا۔ کچھ باتیں بھائی نے وثیقہ نویس کو بتائیں اور کچھ وثیقہ نویس نے اپنی طرف سے لکھ کر طلاق کا نوٹس تیار کر دیا اور بھائی نے مجھ سے زبردستی انگوٹھا لگوا لیا۔لیکن میں نے سائن پھر بھی نہیں کیے۔

میں اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں کہ میں نے طلاق نہیں دی۔ اورنہ ہی کسی کے سامنے طلاق کا لفظ منہ سے  نکالا اور نہ ہی میں طلاق دینے پر رضامند تھا، نہ میں نے طلاق نامہ پڑھا اور نہ ہی یہ معلوم تھا کہ طلاق نامہ میں کیا لکھا ہے؟ برائے مہربانی اس مسئلے پر غور کریں اور قرآن و سنت کی رو سے بتائیں کہ  کیا میرا گھر بچ سکتا ہے؟

بیوی کا موقف:

میں اپنے والد کی گھر آئی تھی، ہمارا کوئی لڑائی جھگڑا نہیں ہوا تھا۔ چند دن بعد انہوں نے طلاق کا کاغذ بھیج دیا۔ سننے میں آیا ہے کہ کسی کے کہنے میں آکر طلاق لکھی ہے لیکن مجھے اس کا صحیح علم نہیں، البتہ زبان سے کبھی مجھے طلاق نہیں دی، ہمارا ایک بیٹا ہے میں واپس شوہر کے پاس جانا چاہتی ہوں۔

شوہر کی والدہ کا موقف:

ہم نے کہا تھا کہ بیوی کو طلاق دو یا اسی کے پاس چلے جاؤ ہمارے پاس نہیں رہنا، اور پھر طلاق نامے پر اس سے انگوٹھا لگوا لیا۔ اب اگر یہ بیوی کو لانا چاہتا ہے تو ہم راضی ہیں اگر شرعا ً اجازت ملتی ہے تو ٹھیک ہے۔

شوہر کے بھائی کا موقف:

والدہ نے طلاق دینے کا کہا تھا اور اسٹام پیپر بنوانے کے لیے میں ساتھ گیا تھا۔ بھائی نے اسٹام والے کو کچھ معلومات دیں تو اسٹام والے نے پورا طلاق نامہ لکھ کر دے دیا۔ پھر بھائی انگوٹھا نہیں لگا رہا تھا میں نے زبردستی انگوٹھا لگوا یا۔ میرے سامنے اس نے طلاق نامہ کی تحریرلکھوائی تھی اور نہ پڑھی تھی بس انگوٹھا  لگایا تھا۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر واقعتاً آپ کی والدہ نے آپ کو قطع تعلقی اور گھر سے نکالنے کی دھمکی دی تھی اور آپ کے لیے قطع تعلقی کرنا اور الگ سے گھر کا بندوبست کرنا ممکن نہیں تھا اور اسی دباؤ میں آکر انگوٹھا لگا دیا تھا اور آپ کی طلاق کی نیت بالکل نہ تھی تو آپ کی بیوی کو کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

لیکن اگر آپ کے لیے والدہ سے قطع تعلقی کرنا اور الگ گھر کا بندوبست کرنا ممکن تھا تو مذکورہ تحریر پر  انگوٹھا لگانے کی وجہ سے ایک طلاق واقع ہوچکی ہے،تین طلاقیں واقع نہیں ہوئیں کیونکہ شوہر کو یہ علم نہ تھا کہ طلاقنامہ میں کتنی طلاقیں لکھی ہوئی ہیں لیکن اس کو اس بات کا علم تھا کہ یہ طلاقنامہ ہے اس لیے اس سے کم از کم ایک رجعی طلاق کا حکم لگایا جائے گا، رجعی طلاق کے بعد عدت کے اندر رجوع ہو سکتا ہے اور اگر عدت کے اندر رجوع نہ کیا تو عدت کے بعد اکٹھے رہنے کے لئے کم از کم دو گواہوں کی موجودگی میں نئے حق مہر کے ساتھ دوبارہ نکاح کرنا ہوگا۔

نوٹ: ایک رجعی طلاق ہونے  کی صورت میں شوہر کو آئندہ  دو طلاقیں دینے کا اختیار حاصل ہوگا ۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں والدہ نے قطع تعلقی اور گھر چھوڑنے کی دھمکی دی تھی لہٰذا اگر شوہر کے لئے والدہ سے قطع تعلقی کرکے الگ گھر کا بندوبست کرنا ممکن نہ تھا  تو شوہر کی رضا معدوم ہو گئی اور اکراہ ثابت ہوگیا اور مکرہ کی تحریری طلاق واقع نہیں ہوتی اور اگر والدہ سے قطع تعلقی کرکے الگ گھر  کا بندوبست کرنا ممکن تھا تو اکراہ متحقق نہ ہوگا اور طلاق واقع ہوجائے گی۔

شامی (4/443) میں ہے:

وكذا كل كتاب لم يكتبه بخطه ولم يمله بنفسه لا يقع الطلاق ما لم يقر أنه كتابه

درمختار مع ردالمحتار (427/4) میں ہے:

(ويقع طلاق كل زوج بالغ عاقل) ………..(ولو عبدا أو مكرها)

و في الشامية تحته: وفي البحر أن المراد الإكراه على التلفظ بالطلاق، فلو أكره على أن يكتب طلاق امرأته فكتب لا تطلق لأن الكتابة أقيمت مقام العبارة باعتبار الحاجة ولا حاجة هنا، كذا في الخانية،

درمختار مع ردالمحتار  (217/9) میں ہے:

الإكراه (هو لغة حمل الإنسان على) شيء يكرهه وشرعا (فعل يوجد من المكره فيحدث في المحل معنى يصير به مدفوعا إلى الفعل الذي طلب منه) وهو نوعان تام وهو الملجئ بتلف نفس أو عضو أو ضرب مبرح وإلا فناقص وهو غير الملجئ. (وشرطه) أربعة أمور: (قدرة المكره على إيقاع ما هدد به سلطانا أو لصا) أو نحوه (و) الثاني (خوف المكره) بالفتح (إيقاعه) أي إيقاع ما هدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ (و) الثالث: (كون الشيء المكره به متلفا نفسا أو عضوا أو موجبا غما يعدم الرضا) وهذا أدنى مراتبه وهو يختلف باختلاف الأشخاص فإن الأشراف يغمون بكلام خشن، والأراذل ربما لا يغمون إلا بالضرب المبرح ابن كمال (و) الرابع: (كون المكره ممتنعا عما أكره عليه قبله) إما (لحقه) كبيع ماله (أو لحق) شخص (آخر) كإتلاف مال الغير (أو لحق الشرع)

(قوله: في الحال) كذا في الشرنبلالية عن البرهان والظاهر أنه اتفاقي إذ لو توعده بمتلف بعد مدة، وغلب على ظنه إيقاعه به صار ملجئا تأمل. لكن سيذكر الشارح آخرا أنه إنما يسعه ما دام حاضرا عنده المكره وإلا لم يحل تأمل.

درمختار مع ردالمحتار  (238/9) میں ہے:

وفيه المكره على الأخذ والدفع إنما يبيعه ما دام حاضرا عنده المكره، وإلا لم يحل لزوال القدرة والإلجاء بالبعد منه.

(قوله: ما دام حاضرا عنده المكره) قال في الهندية عن المبسوط: فإن كان أرسله ليفعل فخاف أن يقتله إن ظفر به إن لم يفعل لم يحل، إلا أن يكون رسول الآمر معه على أن يرده عليه إن لم يفعل.

بدائع الصنائع(3/283)میں ہے:

أما الطلاق الرجعى فالحكم الأصلى له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك وحل الوطء فليس بحكم اصلى له لازم حتى لا يثبت للحال وانما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فان طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت

عزیزالفتاوی(492)  میں ہے :

سوال : مسماۃبیگم جو کہ بندہ کے نکاح میں تھی والد صاحب کو چند آدمیوں نے کہاکہ اس کو (اپنے لڑکے کو)ا س سے ( اس کی بیوی سے ) علیحدہ کرا دیجئے، بندہ نے باادب والد صاحب کو یہ جواب دیا کہ میری حالت اس کو ترک کرنے سے ابتر ہوجائے گی، والد نے کہا تجھ سے کبھی نہ بولوں گا اس پر بندہ نے دو روپیہ کے کاغذ کا اسٹام خریدا، ایک پر طلاق نامہ لکھا گیا اور دوسرے پرمہر نامہ ، اس وقت میری حالت ابتر او ر خراب تھی مجھ کوخبر نہ تھی کہ کس حالت میں ہوں مجھ پر صدمہ پڑا ہوا تھا کبھی روتا تھا کبھی خاموش ہوجاتا تھا،یہ بات قسمیہ عرض ہے جہاں تک مجھ کو خیال ہے اس حالت میں مجھ سے لفظ طلاق دو مربتہ نکل گیا تو یہ جائز ہے یا نہیں ؟

(الجواب)کاغذ کی لکھی ہوئی طلاق تو اس حالت عدم رضا میں نہیں واقع ہوئی مگر زبان سے دو مرتبہ طلاق کا لفظ نکلا اس سے دو طلاق رجعی واقع ہوگئی ، عدت کے اندر رجوع کرنا درست ہے ۔ فقط واﷲاعلم

امدادالفتاویٰ جدیدمطول(5/183)میں ہے:

"سوال :ایک شخص نے دوسرے سے کہا ایک طلاق لکھ دو اس نے بجائے صریح کے کنایہ لکھ دیا آمر نے بغیر پڑھے یا پڑھائے دستخط کر دیئے تو کیا حکم ہے اور دستخط کرنا شرعاً کیا حکم رکھتا ہے؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔الخ

الجواب :اگر مضمون کی اطلاع پردستخط کئے ہیں تو معتبر ہے ورنہ معتبر نہیں قواعد سے یہی حکم معلوم ہوتا ہے اور دستخط کرنا اصطلاحاً اس مضمون کو اپنی طرف منسوب کرنا ہے۔۔۔۔۔الخ”

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved