• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

وراثت میں ملنے والے قرض کی وجہ سے قربانی و زکوٰۃ کا حکم

استفتاء

کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے متعلق کہ میرے والد صاحب کا  چھ ماہ قبل انتقال ہوا تھا، ان کے کفن دفن کے بعد جب مال متروکہ کا حساب لگایا تو تقریباً پچاس لاکھ روپے تھے، اور یہ سب پیسے لوگوں کی طرف ہیں، جن سے وصول کرنے ہیں، اور والد صاحب پر تقریباً 35 لاکھ روپے قرض تھا، اب جیسے جیسے لوگوں سے پیسے وصول کرتے ہیں سب سے پہلے وہ قرض ادا کر رہے ہیں جس میں ابھی تقریباً 25 لاکھ قرض ادا کر دیا ہے اور دس لاکھ کے قریب باقی ہے، کل قرض ادا کرنے کے بعد 15 لاکھ روپے باقی ہیں، ہم چھ بہن بھائی اور ایک والدہ ہے، بہنوں کی شادی ہو چکی ہے، سب اپنے اپنے گھروں میں ہیں، بھائی بھی اپنا اپنا کام محنت مزدوری کرتے ہیں، اتنا کماتے ہیں  کہ اپنا گذر بسر ہو سکے، والدہ بھائیوں کے ساتھ ہے۔

مسئلہ یہ دریافت کرنا ہے یہ 15 لاکھ جو ادائے قرض کے بعد ورثاء کا حصہ ہے، جو ابھی ورثاء کو نہیں ملا لوگوں کے پاس ہے، یہ اتنا ہے کہ اگر تقسیم کیا جائے تو سب صاحب نصاب ہو جاتے ہیں تو کیا ان ورثاء پر جن کو ابھی وراثت نہیں ملی، ابھی تو قرض ادا کیا جا رہا ہے، اور اپنا گذر بسر مشکل ہے، کیا بہن بھائیوں میں سے ہر ایک پر اور والدہ پر عید الاضحیٰ میں قربانی واجب ہے یا نہیں؟ اور ادائے زکوٰۃ کی کیا صورت ہے کب دی جائے گی؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں اگر ورثاء کے پاس اس ملنے والے قرضہ کے علاوہ نصاب کے بقدر مال نہیں تو ان پر نہ قربانی ہے اور نہ ہی زکوٰۃ ہے۔

توجیہ: کیونکہ وراثت کا جو مال دوسروں پر قرض ہے وہ دین ضعیف ہے اور دین ضعیف قبضہ سے پہلے نہ موجب زکوٰۃ ہے اور نہ ہی موجب قربانی ہے۔ اور اگر اسے دین متوسط بھی کہیں تو پھر بھی ظاہر الروایہ کے مطابق دین متوسط کا بھی وہی حکم ہے جو دین ضعیف کا ہے۔

فتاویٰ شامی (3/ 283) میں ہے:

ومثله ما لو ورث دينا على رجل وعند قبض مائتين مع حولان الحول بعده أي بعد القبض. قال الشامي: أي مثل الدين المتوسط فيما مر و نصابه من حين ورثه، رحمتي. وروي أنه كالضعيف، فتح وبحر. والأول ظاهر الرواية وشمل ما إذا وجب الدين في حق المورث بدلا عما هو مال التجارة أو بدلاً عما ليس لها، تاترخانية، لأن الوارث يقوم مقام المورث في حق الملك لا في حق التجارة فأشبه بدل مال لم يكن للتجارة، محيط. وفيه: وأما الدين الموصى به فلا يكون نصاباً قبل القبض، لأن الموصى له ملكه ابتداء من غير عوض ولا قائم مقام الموصي في الملك فصار كما لو ملكه بهبة اه، فهو كالدين الضعيف.

بدائع الصنائع (2/ 89) میں ہے:

وعلى هذا يخرج قول أبي حنيفة في الدين الذي وجب للإنسان لا بدلا عن شيء رأساً كالميراث الدين و الوصية بالدين أو وجب بدلاً عما ليس بمال أصلاً كالمهر للمرأة …أنه لا تجب الزكاة فيه.

بدائع الصنائع  میں دوسری جگہ (2/ 90) ہے:

وأما الدين الضعيف فهو الذي وجب له لا بدلاً  عن شيء سواء وجب له بغير صنعه كالميراث أو بصنعه كالوصية أو وجب بدلاً عما ليس بمال كالمهر، وبدل الخلع والصلح عن القصاص وبدل الكتابة، ولا زكاة فيه ما لم يقبض كله ويحول عليه الحول بعد القبض… فقط والله تعالى أعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved