- فتوی نمبر: 14-85
- تاریخ: 13 مارچ 2019
- عنوانات: حظر و اباحت > متفرقات حظر و اباحت
استفتاء
۱۔ الحمد اللہ میں اسلامی پندرہ واٹس ایپ گروپس چلاتا ہوں ۔تلاوت قرآن پاک اور ہر قسم کی اسلامی معلومات شیئر کرتا ہوں تو اسلامک شرعی حساب سے اس کاکوئی ثواب ہوتا ہے ؟
۲۔ میں نے تین چار فحاشی گروپ جوائن کیے میرا مقصد یہ تھا کہ لوگ یہ گروپ چھوڑدیں تو الحمدللہ میری کچھ تھوڑی سے محنت کو اللہ پاک نے رنگ لایا تقریبا پچاس لوگوں نے مولانا صاحب کے بیان کے لیے گروپ جوائن کیے ۔کیا یہ بھی تبلیغ میں شمار ہو تا ہے؟اور میں کبھی کبھی وہ گروپ جوائن کرتا رہتا ہوں تو کچھ نہ کچھ مطلب پانچ دس لوگ آتے ہیں اسلامی گروپ میں ،گروپ میں رہنے کے دوران فحاشی ویڈیویا تصاویر کا سامنا ہو جاتا ہے کبھی کبھی ۔اسلامی شرعی حساب سے اس کی کیا حیثیت ہے یہ سب کرنا چاہیے یا نہیں؟
۳۔ میں نے خواتین کے لیے الگ گروپ بنائے ہیں وہ اس لیے تاکہ کوئی بھی مرد حضرات خواتین کو تنگ نہ کرے اور نہ ان کا نمبر باہر جائے ۔اور خواتین پہلے Voice Messageکرتی ہیں یا پھر دس سکینڈ صرف کال پہ اتنا بولتی ہے کہ اسلامی گروپ میں ایڈکریں (اسلام میں غیر محرم کا آواز سنا غلط ہے پر اس پر میرا مقصد دین کی تعلیم پہنچانا ہے)یہ سب کرنے کا مقصد یہ ہے کہ تصدیق ہو جائے کہ یہ واقعتا خواتین ہیں تاکہ دوسری خواتین کو پریشانی نہ ہوں ۔تو کیا یہ اسلامی حساب سے صحیح ہے ؟
وضاحت مطلوب ہے :
جو آپ اسلامی چیزیں ارسال کرتے ہیں اس کی صورت کیا ہوتی ہے ؟آڈیو یا ویڈیو؟؟
جواب وضاحت :
دونوں طرح ہوتی ہے آڈیو بھی اور ویڈیو بھی اور کبھی کبھی میسیج کے ذریعے بھی ۔یہ میرے گروپس کے نام ہیں :
۱۔ تلاوت قرآن (مفتی تقی عثمانی کی تفسیر textمیں اور مفتی زرولی خان صاحب کی Audioمیں)
۲۔ بیان مولانا طارق جمیل صاحب (اس میں صرف مولانا صاحب کے بیان آتے ہیں)
۳۔ اسلامی میسیج (یہ صرف میسیج کے لیے نبی پاک ﷺ پر میسیج اور اسلامی موضوع پر)
۴۔ حمد ونعت
۵۔ جمعیت علماء اسلام (صرف جے یو آئی کے بیان اور جمیعت کی نیوز)
۶۔ اسلامی کتب PDF(اسلامی کتاب بھیجنے کے لیے)
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
۱۔ اگر معلومات مستند اور قابل اعتماد ہوں اور نیک نیتی بھی ہو تو ان کا موں کا ثواب ہو گا ورنہ نہیں۔
۲،۳۔ ان دوسوالوں کاجواب دینے کے لیے سائل کے ذاتی ،علمی ،عملی ،تربیتی،اصلاحی کوائف کا براہ راست معلوم ہونا ضروری ہے جو کہ ہمیں معلوم نہیں اس لیے ان دوسوالوں کافی الحال جواب دینے سے معذرت ہے ،اگر سائل چاہیں تو دارالافتاء میں بذات خود آ کر اپنے کوائف سے مطلع فرمائیں اس کے بعد جواب دینے پر غور کیا جاسکتا ہے۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved