• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

یا نکاح نامے پر اصل ولدیت کی جگہ کوئی اور نام ظاہر کرنا

استفتاء

ایک شخص نے ایک لڑکی کو گود لیا اور اس کی پرورش کی اور جب وہ شادی  کے قابل ہوئی تو اس کی شادی کروادی،مگر جس شخص نے لڑکی کی پرورش کی تھی اس نے لڑکی کے شناختی کارڈ پر والد کی جگہ اپنا نام لکھوادیا اور حقیقی والد کا نام نہیں لکھوایا اور نکاح نامہ پر بھی وہی نام لکھوایا جو شناختی کارڈ پر تھا اور شادی کے بعد تقریباً8،9 سال گذر گئے ہیں اور اس کے 4 بچے بھی ہیں۔

اب کسی نے بتایا ہے کہ نکاح میں اور نکاح نامہ میں حقیقی والد کا نام نہیں لیا تو نکاح نہیں  ہوا ، اب پوچھنا یہ ہے کہ اس لڑکی کا نکاح درست ہوا یا نہیں؟ اگر نہیں ہوا تو اس کے لیے کیا حکم ہے؟

نوٹ: حاضرین مجلس نکاح سب جانتے تھے کہ لڑکی سے مراد کون ہے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں نکاح درست ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں اگرچہ حقیقی والد کانام نکاح میں نہیں لیا گیا اور نہ ہی نکاح نامے پر لکھا گیا ہے لیکن چونکہ نکاح کے وقت اصل چیز لڑکی پہچان ہوتی ہے اور حاضرین مجلس جانتے تھے کہ اس لڑکی سے مراد کون ہے   اس لیے یہ نکاح درست ہو گیا تھا۔

الدر المختار مع رد المحتار(4/145) میں ہے:

(غلط وكيلها بالنكاح في اسم أبيها بغير حضورها لم يصح) للجهالة وكذا لو غلط في اسم بنته إلا إذا كانت حاضرة وأشار إليها فيصح.

قال الشامي:(قوله: لم يصح) ‌لأن ‌الغائبة يشترط ذكر اسمها واسم أبيها وجدها، وتقدم أنه إذا عرفها الشهود يكفي ذكر اسمها فقط خلافا لابن الفضل وعند الخصاف يكفي مطلقا.

فتاوی دارالعلوم دیوبند(7/101)میں ہے:

(سوال ۱۳۱)  ایک  لڑکی کا باپ مرگیا،اس کی ماں نے اپنے شوہر کے حقیقی بھائی سے نکاح کرلیا اس لڑکی کا نکاح اس کے چچا یعنی سوتیلے باپ کی اجازت سے ہوا اور بوقت نکاح بجائے نام اصل باپ کے سوتیلے باپ کا لیا گیا‘ پس  اس صورت میں  یہ نکاح صحیح ہوایا نہیں ؟

(الجواب )  ظاہر  یہ ہے کہ یہ نکاح صحیح ہوگیا‘  اگرچہ درمختار کی ایک عبارت سے ایسا مفہوم ہوتا ہے کہ ایسی غلطی میں نکاح صحیح نہیں ہوتا وہ عبارت یہ ہے  غلط وکیلها بالنکاح فی اسم ابيها بغیر حضورها لم یصح للجهالة الخ  اس پر  علامہ شامی نے یہ لکھا ہے

  قوله لم یصح لان الغائبة یشترط ذکر اسمها واسم ابيها وجدها و تقدم انه اذا عرفها الشهود یکفی ذکر اسمها فقط خلافا لابن الفضل و عند الخصاف یکفی مطلقا والظاهر انه فی مسئلتنا لا یصح عند الکل لان ذکر الاسم وحده لا یصرفها عن المراد الی غیره بخلاف ذکر الاسم منسوبا الی اب اخر فان فاطمة بنت احمد لا تصدق علی فاطمة بنت محمد تامل وکذا یقال فیما لو غلط فی اسمها

لیکن  جواب اس کا یہ ہے کہ اول تو درمختار کے اس قول للجہالۃ سے معلوم ہوتا ہے کہ علت عدم جواز نکاح کی غلطی مذکور میں جہالت ہے جو صورت مسئولہ میں مفقود ہے دوسرے درمختار کا مسئلہ بصورت غلطی کے فرض کیا گیا ہے کہ وکیل نے غلطی سے نام بدل دیا اور  صورت مسئولہ میں غلطی سے ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بر بناء علی المعروف والشہرۃ ایسا کیا گیا کیونکہ عرف میں والدہ کے شوہر ثانی کو باپ کہا جاتا ہے غرض جورفع  جہالت ہے وہ اس صورت میں حاصل ہےکیونکہ مطلب اس نسبت کا یہ ہے کہ فلاں لڑکی جو فلاں شخص کی تربیت میں ہے اور فلاں لڑکا  جو فلاں شخص کی تربیت میں ہے ان کا عقد ہوا ہے بلکہ عجب نہیں کہ اصل باپ کی طرف نسبت کرنے میں وہ  تعرف نہ ہو جو اس نسبت میں حاصل ہے  اور مقصود اصلی رفع جہالت ہی ہے جیساکہ شامی میں درمختار کے اس قول  ولا المنکوحة مجهولة  کے تحت میں ہے : قلت وظاهره انها لوجرت المقدمات علی معینة و تمیزت عند الشهود ایضا یصح العقد وهى واقعة الفتوی لان المقصود نفی الجهالة وذلک  حاصل بتعینها عند العاقدین والشهود وان لم یصرح باسمها کما اذا کانت احداهما متزوجة ويؤيده ما سیاتی من انها لو کانت غائبة و زوجها وکیلها فان عرفها الشهود و علمه انه ارادها کفی ذکر اسمها والا لا بد من ذکر الاب والجد ….الحاصل صورت مسئولہ میں نکاح منعقد ہو گیا ۔

فتاوی عثمانی(2/227) میں ہے:

سوال:۔ مسماۃ مہر النساء انجم بنت سید شاکر علی مرحوم ہمراہ  عشرت  علی ولد انور علی سے ہوا ، عشرت علی کے حقیقی والد تو کوئی اور صاحب تھے ، انور علی ، عشرت علی کے سوتیلے والد ہیں ، کیا شرعا نکاح میں کوئی سقم ہے ؟

جواب:۔ عشرت علی صاحب کو اپنی ولدیت ہمیشہ اپنے اصل والد کی بتانی چاہیئے،سوتیلے باپ کی طرف نسبت کرنا خلاف واقعہ ہونے کی بنیاد پر جائز نہیں ، لیکن اگر نکاح کے وقت غلط ولدیت بتا دی گئی مگر عورت یا اس کا وکیل جانتا تھا کہ اس سے مراد کون سے عشرت علی ہیں ، تو نکاح درست ہوگیا ۔

آپ کے مسائل اور ان کاحل(6/106)میں ہے:

ایک شخص نے ایک لڑکا گود لیا،جب لڑکے کی شادی ہوئی تو اس شخص نے جس نے لڑکا گود لیا ہے،نکاح نامے پر لڑکے کی  اصل ولدیت کی بجائے اپنا نام لکھوایا  کیا یہ نکاح ہو گیا؟

جواب:غلط ولدیت نہیں لکھوانی چاہیےتھی،تاہم اگر مجلس نکاح کے حاضرین کو معلوم تھا کہ فلاں لڑکے  کا نکاح  ہو رہا ہے تو نکاح درست ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved