• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زبردستی طلاق نامہ پر دستخط کروانا

استفتاء

میں***ولد***مورخہ 10۔3۔6 کو کشمیر گیا وہاں جاکر میرے سسرال والوں نے کچہری میں جاکر ایک اشٹام فروش والے سے اشٹام لکھوایا، وہ ساری تحریر طلاق کے متعلق لکھی ہوئی تھی اور مجھ کو میرے سسرال والوں نے اس بات پر مجبورکیا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے دوں۔ لیکن جب یہ سارا معاملہ میرے سامنے آیا تو میں نے اپنی بیوی سے پوچھا کہ یہ سب کیا ماجرہ ہے اس نے کہا کہ میرے سب گھر والے کہتے ہیں کہ اپنے شوہر سے فیصلہ لے ، ورنہ ہم تیرے شوہر کو نقصان پہنچائیں گے۔ اس معاملے میں میری بیوی نے مجھ سے فیصلہ مانگا لیکن میری نیت فیصلہ دینے کی نہیں تھی۔ لیکن پھر مجھ کو مجبور کیا گیا  اس مجبوری کی بنا پر میں نے اشٹام پر دستخط کیے۔ اور آخر تک میرے دل میں ایسا خیال نہیں آیا کہ میں اپنی بیوی کو طلاق دوں اور نہ ہی میں نے اپنی زبان سے لفظ نکالا۔ لیکن جناب اب ہم آپس میں رجوع کرنا چاہتےہیں۔ اس سلسلے میں ہم دونوں کے لیے ہمارے لیے شریعت کی رو سے کیا حکم ہے؟

نوٹ: جس وقت میں نے دستخط کیے تھے وہاں پر تین افراد تھے ان تینوں افراد کی وجہ سے دستخط کیے تھے۔ کیونکہ میری جان کو خطرہ تھا، جبکہ گھر پر میرے سسرال والوں نے مجھ کو یہ کہا کہ اگر تم دستخط نہیں کروگے، تو اچھا نہیں ہوگا۔ کیونکہ کہ تم بہتر جانتے ہو۔ میں نے اپنی اور بچی کی جان بچانے کے لیے یہ کام کیا۔ موقع (یعنی دستخط کے وقت) پر کوئی بات نہ کی گئی۔ اگر میں ناں کی بات کرتا تو ظاہر سی بات ہے میری جان کو خطرہ ہوسکتاتھا۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ پہلے گھر پر میرے سسرال والوں نے مجھ کو یہ کہا” اگرتم دستخط نہیں کرو گے تو اچھا نہیں ہوگا کیونکہ  تم بہتر جانتے ہو” پھر گھر سے مجھے دوسری جگہ لے جایاگیا وہاں پر تین افراد موجود تھے ان کی موجودگی میں نے دستخط کیے۔ دوسری جگہ جہاں دستخط کیے وہاں پرا ن افراد نے مجھے کچھ نہیں کہا۔ صرف دستخط کا کہا کوئی دھمکی وغیر ہ نہیں دی۔

مزید وضاحت: تین افراد میں سے ایک میرے ماموں تھے جو میرے حق میں تھے ۔ اور دو آدمی سسرال  والوں کی طرف سے ، جن میں ایک آدمی کافی سارے قتل کرچکا ہے، ا ن کے خوف سے میں نے دستخط کیے۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

اگرمذکور بیان درست ہے تو مذکورہ صورت میں کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔ نکاح بدستور باقی ہے۔

(وشرطه) أربعة أمور(قدرة المكره على إيقاع ماهدد به سلطاناً أو لصاً) أو نحوه(و) الثاني (خوف المكره إيقاعه) أي إيقاع ماهدد به (في الحال) بغلبة ظنه ليصير ملجأ…..قال الشامي تحت قوله (في الحال) كذافي الشرنبلالية عن البرهان ، والظاهر أنه اتفاقي ، إذ لو توعده بمتلف بعد مدة وغلب على ظنه إيقاعه به صار ملجأ ، لكن سيذكر الشارح آخراً أنه  انما يسعه ما دام حاضراً عند المكره وإلا لم يحل. ( شامی، ص: 219، ج: 9 )۔فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved