• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زکوۃ کے پیسے سے اپنی تنخواہ وصول کرنا

استفتاء

کیا فرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ :

1)ہمارے مدرسے میں اساتذہ کو رسید بک دی جاتی ہے کہ اپنی تنخواہ خود اکٹھی کرو اور وہ اساتذہ زکوۃ اور عشر وغیرہ جمع کرکے اپنی تنخواہ میں رکھ لیتے ہیں ، کیا تنخواہ کی وصولی کا یہ طریقہ جائز ہے ؟

2)بسا اوقات اپنی  زکوۃ اور عشر اپنی تنخواہ میں رکھ لیتے ہیں ، کیا کوئی آدمی اپنی زکوۃ یا عشر کو خود استعمال  کر سکتا ہے؟

3)کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آمدنی میں سے خرچ کردیا لیکن سستی یا مصروفیت کی وجہ سے آمدنی درج کرنا یاد نہیں رہی اور جب حساب کیا تو خرچ بڑھ گیا اور آمدنی کم ہو گئی ۔ اس صورت میں  وہ پیسہ مدرسہ پر قرض  شمارہوتا ہے۔اسی طرح کبھی آمدنی درج کرلی لیکن اس میں سے جو خرچ کیا وہ درج نہیں کیا جس کی وجہ سے آمدنی مثلاً زیادہ ہوگئی اور خرچ کم رہا۔ اس صورت میں زیادتی کومنتظمین اپنی تنخواہ میں درج کرلیتے ہیں ۔کیا ایسا کرنا جائز ہے ؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

1)اساتذہ کو تنخواہ دینے کی مذکورہ صورت جائز نہیں کیونکہ زکوۃ کی رقم کا کسی مستحقِ زکوۃ کو بلاعوض دینا ضروری ہے اورمذکورہ  صورت میں زکوۃ کی رقم  عوض بن رہی  ہے لہٰذا اس طریقہ سے زکوۃ کی رقم سے اپنی تنخواہ رکھ لینا جائز نہیں ۔

2)اپنی زکوۃ یا عشر کی رقم خود استعمال کرنا جائز نہیں کیونکہ زکوۃ کی رقم کا کسی مستحقِ زکوۃ کو بلاعوض دینا ضروری ہے لہٰذا اساتذہ کا اپنی زکوۃ یا عشر کی رقم بطورِ تنخواہ کے خود استعمال کرنا جائز نہیں ۔

3) منتظمین کا مذکورہ طرزِعمل جائز نہیں کیونکہ اس صورت میں وقف کا مال جو کہ ان کے پاس امانت ہے اس میں بے احتیاطی کا قوی امکان ہے ۔لہٰذا ان کو چاہیے کہ وہ آمدن اور خرچ کے لکھنے کا اہتمام کریں  تاکہ لوگوں کے دلوں میں شکوک وشبہات پڑنے سے اور بے احتیاطی کی وجہ سے اللہ کے ہاں مجرم بننے سے بچے رہیں ۔

درمختار مع ردالمحتار(3/359)میں ہے:ولو دفعها المعلم لخليفته إن كان بحيث يعمل له لو لم يعطه صح  وإلا لا(قوله: وإلا لا) أي؛ ‌لأن‌المدفوع‌يكون‌بمنزلة‌العوض.در مختار (3/341)میں  ہے:ويشترط أن يكون الصرف (‌تمليكا) ‌لا‌إباحة.فتاوی عثمانی (132/2) ایک سوال کے جواب میں ہے:جواب :عشر یا صدقۃ الفطر کو امامت کی اجرت مقرر کرنا ہر گز جائز نہیں ہے۔امامت کی تنخواہ الگ مقرر کرنی چاہیے ،پھر اگر تنخواہ پانے کے باوجود امام، صاحبِ نصاب نہ ہو یعنی اس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت یا اس قیمت کا زائد از ضرورت سامان نہ ہو تو اسے عشر اور صدقۃ الفطر بھی دیا جاسکتا ہے، لیکن اس کا امامت سے کوئی تعلق نہیں، نہ اس کو تنخواہ کا جزء بنایا جاسکتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved