• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

ضرورت کی وجہ سے دوسرے قول کو اختیار کرنا

استفتاء

بعد از تسلیمات عرض یہ ہے کہ ہمارا تعلق ضلع لکی مروت کے گاؤں بائست خیل سے  ہے ۔ جس کی مجموعی آبادی تین ہزار سات سو پانچ ہے۔ جس میں گیارہ مساجد دو پرائمری ایک ہائی بوائز سکول ایک مڈل گرلز سکول، دو اسلامی مدرسے للبنین اور ایک مدرسہ للبنات۔ بارہ پرچون دکانیں اور تین میڈیکل سٹورز ہیں۔ کچھ کوٹکہ جات جو مذکورہ گاؤں سے نکلے ہوئے ہیں جن میں ایک مذکورہ گاؤں سے آدھا کلو میٹر، ایک گاؤں سے ایک کلو میٹر اور ایک گاؤں سے دو کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جن کے ساتھ گاؤں کی آبادی چھ ہزار سے تجاوز کر جاتی ہے۔ اب اہل قریہ نے متفقہ فیصلہ کیا ہے کہ مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی وجوب کے بارے میں حضرات مفتیان عظام سے رجوع کیا جائے اب اس کے بارے میں عرض  یہ ہے کہ آیا مذکورہ گاؤں میں جمعہ کی نماز واجب ہے یا نہیں؟ نیز ملحقہ کوٹکہ جات گاؤں میں شمار ہیں یا نہیں؟ اور ان کا حکم کیا ہے؟ باحوالہ جواب سے مستفید فرما کر ممنون فرمائیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

فقہائے حنفیہ کے نزدیک جمعہ واجب اور صحیح ہونے کے  لیے منجملہ دیگر شرائط کے ایک شرط اس  جگہ کا شہر یا بڑی بستی ہونا ہے۔ لیکن شہر یا بڑی بستی کی تعریف میں فقہائے حنفیہ کے تقریباً نو قول ہیں جیسا کہ  ان کی تفصیل بدائع الصنائع ( 584/ 1) میں موجود ہے ان اقوال میں دو قولوں کو زیادہ  راجح  قرار دیا گیا ہے ان میں سے پہلا قول وہ ہے جو امام صاحب سے مروی ہے: و روي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك و أسواق ولها رساتيق و فيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحكمه و علمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث و  هو الأصح. (بدائع، 585/ 1)، ترجمہ: یعنی ایسی بستی ہو جس میں گلیاں ہوں محلے ہوں اور بازار ہو اور  اس میں کوئی ایسا حاکم ہو جو مظلوم کو ظالم سے انصاف دلانےپر قادر ہو اپنے فیصلے کے ذریعے  اور اپنےعلم  کے ذریعے یا کسی دوسرے کے علم کے ذریعے اور لوگ اپنے پیش آمدہ حالات و واقعات میں ان کی طرف رجوع کرتے ہوں۔

اور دوسرا قول یہ ہے :المصر و هو مالا يسع أكبر مساجده أهله المكلفين بها و عليه فتوى أكثر الفقهاء … لظهور التواني في الأحكام. یعنی شہر اور بڑی بستی وہ جگہ ہے کہ جس کی سب سے بڑی مسجد میں اس جگہ کے تمام مکلفین ( یعنی جن پر جمعہ فرض ہے) پورے نہ آسکیں۔

اگرچہ عام طور سے فقہاء نے پہلے قول کو ترجیح دی ہے لیکن پہلا قول ایک تو اپنی تمام قیودات کے ساتھ پورا پورا اچھے خاصے بڑے بڑے قصبوں پر منطبق نہیں ہوتا اور دوسرے یہ کہ ہمارے دور میں بہت سی ایسی بستیوں میں جمعہ کا رواج ہو چکا ہے جو عموماً دوسرے قول کے مطابق تو بڑی بستی کہلا سکتی ہیں پہلے قول کے مطابق نہیں کہلا سکتی۔

اس لیے جس بستی پر دوسرے قول کے مطابق بھی بڑی بستی کا اطلاق ہو سکتا ہو خصوصاً ایسی بستی جس میں گلیاں محلے ہوں اور ضرورت کی تقریباً سب چیزیں ملتی ہوں ایسی بستی میں جمعہ قائم کرنا درست ہے اور سوال میں آبادی کی جو صورت حال ذکر کی گئی ہے اس کے مطابق دوسرے قول کے مطابق یہ بستی کے حکم میں ہے اورا س میں  جمعہ قائم کرنا جائز ہے۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved