• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زنا سے حاملہ ہونے والی عورت کے نکاح کا حکم

استفتاء

زنا سے حاملہ ہونے والی عورت بچہ جننے سے پہلے زانی کے علاوہ کسی اور شخص سے  نکاح کرسکتی ہے یا نہیں؟ اگر اس نے کرلیا اور 6 ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہوا  تو وہ بچہ شوہر کا شمار ہوگا یا نہیں؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں زنا سے حاملہ ہونے والی عورت  اگر زانی کے علاوہ کسی اور شخص سے نکاح کرے تو وہ نکاح تو ہوجائے گالیکن شوہر کے لیے  وضع حمل ( بچے کی پیدائش) سے پہلےہمبستری  کرنا جائز نہ ہوگا۔نیز مذکورہ صورت میں نکاح کرنے کے بعد چھ ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہوگیا تو وہ بچہ شوہر کا شمار نہ ہوگا۔

فتح القدير (4/ 358)میں ہے:

(وإذا ‌تزوج ‌الرجل ‌امرأة فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم تزوجها لم يثبت نسبه) لأن العلوق سابق على النكاح فلا يكون منه

قوله وإذا تزوج الرجل امرأة فجاءت بولد لأقل من ستة أشهر منذ يوم تزوجها لم يثبت نسبه) لأن أقل مدة الحمل ستة أشهر فلزم كونه من علوق قبل النكاح

ہندیہ (1/ 280) میں ہے:

«وقال أبو حنيفة ومحمد – رحمهما الله تعالى – يجوز أن يتزوج ‌امرأة ‌حاملا ‌من ‌الزنا ولا يطؤها حتى تضع.

بدائع الصنائع (2/ 269) میں ہے:

«وعلى هذا يخرج ما إذا تزوج امرأة ‌حاملا ‌من ‌الزنا أنه يجوز في قول أبي حنيفة ومحمد، ولكن لا يطؤها حتى تضع (ولهما) أن المنع من نكاح الحامل حملا ثابت النسب؛ لحرمة ماء الوطء ولا حرمة لماء الزنا بدليل أنه لا يثبت به النسب قال النبي: – صلى الله عليه وسلم – «الولد للفراش وللعاهر الحجر» فإذا لم يكن له حرمة لا يمنع جواز النكاح إلا أنها لا توطأ حتى تضع لما روي عن رسول الله – صلى الله عليه وسلم – أنه قال: «من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا يسقين ماءه زرع غيره

خیر الفتاویٰ (5/306) میں ہے:

***نے مؤرخہ 20 ذی الحجہ 1402ھ کو ہندہ کے ساتھ نکاح کیا اور30 جمادی الاولی 1403 ھ کو ہندہ نے وضع  حمل کیا تو یہ مدت تقریبا پانچ ماہ 10 یوم بنتی ہے۔ کیا یہ بچہ ثابت النسب ہے؟ کیا نکاح دوبارہ پڑھا جائے یا وہی سابقہ نکاح باقی ہے؟

الجواب یہ بچہ ثابت النسب نہیں ہے اور پہلا نکاح باقی ہے دوسرا نکاح پڑھنے کی حاجت نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved