• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : صبح آ ٹھ تا عشاء

زندگی میں بیٹوں کو جائیداد دینے کاحکم

استفتاء

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

میں مسمی عزیز الرحمن ولدحافظ کاملین ؒ نے اپنی ذاتی جائیدادیں :

۱۔ بادامی باغ والی فیکٹری جو کہ اٹھارہ مرلہ کے قریب ہے ۔

۲۔ شاہ عالم مارکیٹ میں ٹریڈسنٹر فسٹ فلور جو کہ تقریبا ساڑھے چار مرلہ ہے ۔

۳۔            شاہ عالم مارکیٹ ٹریڈ سنٹر فسٹ فلور پر دوکان جو کہ تقریبا ایک سو نو مربع فٹ ہے ۔

۴۔            شاہ عالم مارکیٹ عزیر سنٹر جو کہ تقریبا سوا دو مرلہ اور دس منزلہ بغیر تہہ خانے کے ہے ۔

ان چاروں جائیدادوں میں اپنے تینوں حقیقی بیٹوں حافظ عبید الرحمن ،حافظ حفیظ الرحمن ،حافظ مطیع الرحمن کو 24,24,24 فیصدحصہ دار بناتا ہوں ۔چاروں جائیدادوں میں اٹھائیس فیصد حصہ اپنے نام یعنی اپنی ملکیت میں رکھتا ہوں ۔

میرے بیٹوں کی وجہ سے میرا کاروبار بڑھا ہے اور میری دو بیٹیاں ہیں فی الحال ان کو کچھ نہیں دے رہا اور میرا ارادہ ہے کہ اپنی بیٹیوں کو بعد میں دوں گا ان شاء اللہ ۔شریعت کی نظر میں ہمارا ایسا کرنا صحیح ہے ؟

وضاحت مطلوب ہے :۱۔         فی الحال بیٹیوں کو نہ دینے کی وجہ کیا ہے ؟

۲۔ کیا بیٹیاں شادی شدہ ہیں یا غیر شادی شدہ ہیں؟

۳۔            بیٹوں کی معاشی حالت کیسی ہے؟

جواب وضاحت:۱۔   میں کاروبار میں بیٹوں کو حصہ دار بنانا چاہتا ہوں تاکہ وہ ذمہ داری سے کام کریں اور بھی میری پراپرٹی ہے جو میرے نام ہے اور بیٹیوں کو دینے کا ارادہ ہے ۔

۲۔ دونوں شادی شدہ ہیں

۳۔            ایک کی مالی حیثیت بہت اچھی ہے جبکہ دوسری کی ذرادرمیانی ہے

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

عام حالات میں جب آدمی اپنی اولاد کو کوئی چیز ہبہ(ہدیہ) کرے تو اس میں اولاد کے درمیان برابری کرے حتی کہ بیٹوں اور بیٹیوں کو برابر دے یہ افضل ہے اوریہ بھی جائز ہے کہ بیٹے کو دوگنا اور بیٹی کو ایک گنا دے اس سے کمی بیشیکرناجائز نہیں ۔البتہ خاص حالات کے پیش نظر مزیدکمی بیشی کی جاسکتی ہے ۔

مذکورہ صورت میں کاروبار کاایک مخصوص حصہ والد صرف اپنے بیٹوں کو دینا چاہ رہا ہے اور فی الحال بیٹیوں کو کچھ نہیں دے رہا اس کی ایک معقول وجہ (بیٹوں کی کاروبار میں محنت اورکاروبار میں مزیددلچسپی پیدا کرنا )موجود ہے لہذا سائل کا یہ ہدیہ کرنا جائز ہے ۔

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved