- فتوی نمبر: 6-210
- تاریخ: 26 دسمبر 2013
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
ہمارے والد صاحب کے انتقال کے بعد بڑے بھائی ہمارے سرپرست تھے، ہم بالغ ہونے کے باوجود کم عمری کی وجہ سے ان کا احترام کرتے تھے اور ان سے کوئی پوچھ گچھ نہ کرتے تھے۔ والد صاحب کے ترکہ میں بھی وہ خود مختار تھے کسی کو ان پر اعتراض نہ تھا، ہم بھائی امامت وغیرہ اور لوگوں کے ہدایا سے جو کچھ بچاتے تھے والدہ کے یا بڑے بھائی کے حوالہ کر دیتے تھے، ہماری والدہ بھی کام کرتی تھیں۔
ہماری کم عمری میں بڑے بھائی نے ایک دفعہ والدہ سے کہا کہ میں دو چھوٹے بھائیوں *** اور دال کے لیے پلاٹ خریدنا چاہتا ہوں مجھے پیسے دیں۔ والدہ نے اس وقت (1974ء) میں انہیں 20000 روپے دیے (ہمارا خیال یہ ہے کہ ہم جو پیسے بچا کر انہیں دیتے تھے، شاید وہ اس کا بدل دینا چاہتے تھے، مگر ہم یقینی طور پر کچھ نہیں کہہ سکتے۔)
بڑے بھائی نے ان پیسوں سے دس مرلہ کا ایک پلاٹ خریدا، بیچنے والا چونکہ ہمارے گھرانہ کو اچھی طرح جانتا تھا، اس لیے اس نے مارکیٹ سے کافی سستا پلاٹ دیا، بڑے بھائی نے رجسٹری *** اور دال دونوں کے نام کروائی، مگر نہ تو کسی کو رجسٹری دی اور نہ ہی کسی کو حقیقت بتائی، بلکہ وہ پلاٹ کے بارے میں کبھی کوئی بات کہتے، کبھی کوئی بات۔ حتیٰ کہ انہوں نے اس میں سے تین مرلہ پر والدہ کو مکان بنا کر دیا اور کہا کہ یہ آپ کا ہے، والدہ نے بھی اس میں رہائش اختیار کر لی، پھر بھائی نے کہا کہ بائع نے مذکورہ پلاٹ میں نے دال کے حصے کے پیسے نہیں لیے اسے مفت دیا ہے، *** کے پیسے لیے ہیں، جس کی وجہ سے سب بہن بھائیوں نے یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ دال کا حصہ بائع کی طرف سے اسے ہدیہ ہے۔ (حالانکہ بائع آج بھی زندہ ہے اس سے جب *** نے وضاحت مانگی تو اس نے کہا کہ میرے لیے تمہارے والد صاحب کی ساری اولاد برابر ہے، میں نے کسی کو خصوصی طور سے کچھ نہیں دیا۔ مزید برآں جیسا کہ اوپر وضاحت ہو چکی ہے کہ بڑے بھائی مختلف باتیں کہتے رہے ہیں، آج جب *** نے ان سے مذکورہ پلاٹ میں دال کے ہدیہ کے بارے میں سوال کیا ہے، تو وہ کہتے ہیں کہ بائع دال کو کیوں ہدیہ کرتا۔)
جب *** کی شادی کا وقت آیا اور *** نے اس پلاٹ پر مکان بنانا چاہا تو بڑے بھائی نے انکار کیا کہ اس پلاٹ میں *** کا کوئی حصہ نہیں ہے، یہ مکان نہیں بنا سکتے۔ اس پر والدہ اور بھائی میں ناراضگی ہو گئی، والدہ نے کہا کہ اگر تم اسے مکان نہیں بنانے دیتے تو میرے پیسے واپس کرو، بھائی نے سوچا کہ انہوں نے اب تک زندگی میں والدہ سے جو کچھ لیا ہے سب واپس کر دیں، اس کا اندازہ انہوں 50000 روپے لگایا۔ پھر مذکورہ پلاٹ کی رجسٹری اور 20000 روپے والدہ کو دیتے ہوئے کہا کہ اس میں سے 5 مرلہ پلاٹ اور یہ پیسے دے کر میں نے آپ کا حساب بے باق کر دیا ہے (باقی 5 مرلہ کے بارے میں اس میں وقت بھائی یہی کہتے تھے کہ یہ بائع نے دال کو ہدیہ کیا ہے)۔ والدہ نے وہ پیسے لے کر *** کر دیتے ہوئے مکان بنانے کی اجازت دے دی۔ والدہ نے پلاٹ دیتے وقت *** کو یہ کہا کہ یہ پلاٹ تمہارا ہے اور بعد میں بھی اس پلاٹ کو *** کا کہا، اور نہ کبھی اسے انہی کی ملکیت کہا اور سمجھا۔
اب صورت حال یہ ہے کہ دیگر بہن بھائیوں کو اعتراض ہے کہ والدہ نے اپنی تمام جمع پونجی ایک بیٹے کو دے کر غلط کام کیا ہے۔ بہن چاہتی ہے کہ انہیں حصہ دیا جائے۔
سوال یہ ہے کہ اب والدہ بہت ضعیف ہو چکی ہیں، دیگر بہن بھائیوں کا ان کے بارے میں یہ سوچ رکھنا درست ہے؟ کیا رجسٹری دوسروں کے نام ہوتے ہوئے بڑے بھائی کا مذکورہ پلاٹ میں سے والدہ کو مکان بنا کر دینا درست ہے؟ کیا والدہ کا اپنی تمام جمع پونجی ایک بیٹے کو کسی فوری ضرورت کو دے دیتا اور اس کا مالک بن جانا شرعاً درست ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جتنا پلاٹ اور رقم والدہ نے *** کو دی وہ *** کی ملکیت ہو گئی۔ پلاٹ کا بقیہ حصہ اور تین مرلہ کا مکان والدہ کا ہے جو ان کی وفات پر سب وارثوں میں تقسیم ہو گا۔
تمام اولاد والدہ کے بارے میں غلط یا صحیح کی تفصیل میں پڑنے کے بجائے ان کے لیے دعاء خیر کرے۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved