- فتوی نمبر: 25-37
- تاریخ: 15 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ (1) مسجدکی انتظامیہ کی اجازت سے مسجد کی چیزیں مثلاً استعمال شدہ پائپ وغیرہ جو بے کار پڑے ہوئے ہیں امام مسجد بطور ملک کے لے سکتا ہے ؟
(2)مسجد کے چندے سے امام مسجد کی تنخواہ کی کمی پوری کی جاسکتی ہے ؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مسجد کی انتظامیہ کے پاس مسجدکےلیے وقف شدہ سامان عوض کے بغیر کسی کو دینے کا اختیا رنہیں ۔کیونکہ مسجد کی انتظامیہ مسجد کی اشیاء کی مالک نہیں ہوتی بلکہ اس کی حیثیت امین اور نگران کی ہوتی ہے ۔لہٰذا مذکو رہ صورت میں انتظامیہ کی اجازت کے باوجود امام مسجد کا مسجد کے پائپ وغیرہ بطور ملک لینا جائز نہیں ۔
(2) چونکہ امام صاحب کی تنخواہ بھی مسجد کی ضروریات میں داخل ہے ،اس لیے امام کی تنخواہ مسجد کے چندے سے پوری کرناشرعاًجائز ہے ۔
البحرالرائق (420/5)میں ہے :وإذا رأى حشيش المسجد فرفعه إنسان جاز إن لم يكن له قيمة فإن كان له أدنى قيمة لا يأخذه إلا بعد الشراء من المتولي أو القاضي أو أهل المسجد أو الإمام وكذا الجنائز العتق أو الحصر المقطعة والمنابر والقناديل المكسرة.فتاوی شامی (562/6)میں ہے :“(ويبدأمن غلته بعمارته)ثم ماهواقرب لعمارته كإمام مسجد ومدرس مدرسة يعطون بقدر كفايتهم ،ثم السراج والبساط كذلك إلى آخر المصالح …………مصالح المسجد يدخل فيه الموذن والناظر ويدخل تحت الامام الخطيب لانه امام الجامع”کفایت المفتی (67/7) میں ہے :“سوال:ایک مسجد کے تحت ومتعلق دو دوکانیں اور ایک مکان اور ایک کوٹھراہے جن کی مجموعی آمدنی تخمیناسولہ روپے ماہوار ہے ۔اس میں سے امام ومؤذن کی تنخواہ بحساب دس روپے ماہواراور چارروپے ماہوار دینا شرعاًکیسا ہے ؟
جواب:مسجد کی آمدنی میں سے امام اور مؤذن کی تنخواہ دینی جائز ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved