- فتوی نمبر: 16-153
- تاریخ: 15 مئی 2024
استفتاء
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
بارش کے کھڑے پانی میں کپڑے بھیگنے کا کیا حکم ہے، جبکہ پانی سڑک پر بہت زیادہ ہو، اس سے بچنا ناممکن ہو۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بارش کے کھڑے پانی میں اگر نجاست کا ملنا یقینی نہ ہو یا نجاست کا ملنا تو یقینی ہو لیکن بارش کا پانی کثیر (جس کی لمبائی چوڑائی 10×10 ہو، اور گہرائی کم سے کم اتنی ہو کہ چلو سے پانی لینے میں اس کے نیچے کی زمین نہ کھلے) ہو یا جاری ہو اور اس میں نجاست کا رنگ، بو، ذائقہ محسوس نہ ہو تو ان صورتوں میں یہ پانی پاک ہے، لہذا اگر کپڑوں کو لگ جائے تو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اور اگر پانی قلیل ہو یا کثیر ہو لیکن نجاست کا اثر (رنگ، بو، ذائقہ میں سے کوئی ایک ) پانی میں محسوس ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں یہ پانی ناپاک ہے، لہذا اگر یہ پانی کپڑوں کو لگ گیا تو کپڑے ناپاک ہوں گے اور انہیں دھونا ضروری ہو گا، لیکن اس صورت میں اگر کپڑوں کو بدلنا یا بار بار دھونا مشکل ہو تو عموم بلویٰ کی وجہ سے جب تک خود نجاست کا کپڑوں پر لگنا معلوم نہ ہو اس وقت تک ایسے کپڑوں کو پاک کہا جائے گا۔
طحطاوی علی الدر (1/161) میں ہے:
لو أصاب الثوب ما سال من الكنيف فالأحب أن يغسله و لا يجب ما لم يكن أكبر رأيه أنه نجس.
البحر الرائق (1/ 78) میں ہے:
اعلم أن العلماء أجمعوا على أن الماء إذا تغير أحد أوصافه بالنجاسة لا تجوز الطهارة به قليلا كان الماء أو كثيرا جاريا كان أو غير جار … وإن لم يتغير بها فاتفق عامة العلماء على أن القليل ينجس بها دون الكثير.
البحر الرائق(1/ 88) میں ہے:
(قوله: وإلا فهو كالجاري) أي، وإن يكن عشرا في عشر فهو كالجاري فلا يتنجس إلا إذا تغير أحد أوصافه….. (قوله وهو ما يذهب بتبنة) أي الماء الجاري ما يذهب بتبنة …… (قوله: إن لم ير أثره) أي إن لم يعلم أثر النجس فيه ورأى تستعمل بمعنى علم…. (قوله: وهو طعم أو لون أو ريح) أي الأثر ما ذكر وحاصله أن الماء الجاري وما هو في حكمه إذا وقعت فيه نجاسة إن ظهر أثرها لا يجوز الوضوء به، وإلا جاز.
فتاویٰ شامی: (1/583) میں ہے:
مطلب في العفو عن طين الشارع قوله: (وطين شارع) مبتدأ خبره قوله: عفو…. والحاصل أن الذي ينبغي أنه حيث كان العفو للضرورة وعدم إمكان الاحتراز أن يقال بالعفو وإن غلبت النجاسة ما لم ير عينها لو أصابه بلا قصد وكان ممن يذهب ويجئ، وإلا فلا ضرورة.
© Copyright 2024, All Rights Reserved