- فتوی نمبر: 3-24
- تاریخ: 14 نومبر 2009
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
آج سے پچاس سال پہلے زید نے عمرو سے سو روپے قرض لیا پھر بوقت ادائیگی دینے سے انکار کر دیا۔ اب زید کو اس قرض کے ادا کرنے کی فکر ہوئی اور عمرو کو سو روپے واپس کرنے لگا۔ لیکن عمرو نے سو روپے لینے سے یہ کہکر انکار کردیا کہ اس وقت سو روپے کی مالیت آج کے لاکھوں کے برابر تھی لہذا اگر آج کے اعتبار سے دیتے ہو تو ٹھیک ۔ اب مطلوب یہ ہے کہ آیا زید پر صرف سو روپے دینا ضروری ہیں یا بقول عمرو زیادہ جبکہ زید کا یہ بھی کہنا ہے کہ زیادہ دینے کی صورت میں تو یہ سود بن جائیگا؟
الجواب
پچاس سال پہلے 100 روپے قرض دیتے وقت ان 100 روپے کی جتنی چاندی آتی تھی، اتنی مقدار کی چاندی خرید کر ادا کریں۔
أما إذا غلت قيمتها أو انتقصت بالبيع على حاله ولا يتخير المشتري … قال الثاني ثانية قيمتها من الدراهم يوم البيع و القبض و عليه الفتوى و هكذا في الذخيرة والخلاصة عن المنتقى ونقله في البحر و أقره حيث صرح بأن الفتوى عليه في كثير من المعتبرات فيجب أن يعول عليه إفتاءً وقضاءً.
و لو كان يروج لكن انتقص قيمته….وفتوى الإمام قاضي ظهير الدين على أنه يطالب بالدراهم التي يوم البيع يعني بذلك العيار و لا يرجع بالتفاوت.(رسائل ابن عابدین2/ 60)۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved