- فتوی نمبر: 2-69
- تاریخ: 17 جولائی 2008
- عنوانات: مالی معاملات
استفتاء
محترم مفتی صاحب میرے ایک ہی ماموں تھے جن کا نتقال 24 دسمبر 2007 کو ہوا۔ مرحوم کی اپنی کوئی اولاد نہ تھی اور ممانی جان نومبر 1996، 1997 میں انتقال فرماگئی تھیں۔ ممانی جان کے انتقال کے بعد ماموں جان بار بار اصرار کرتے رہے کہ آپ مستقل میرے پاس آجائیں۔ اور اب یہ گھر آپ کا ہے۔ تھوڑاتھوڑاکرکے گھر کی تعمیر کروالینا۔ گھر کی حالت انتہائی خراب تھی اور میرے گھروالے بھی یہاں شفٹ ہونے کو تیارنہ تھے لیکن میرے اصرار پر کہ کوئی بات نہین مکان کی تعمیر آہستہ آہستہ کرواتے رہینگے۔ ہم لوگ (یعنی ) چھوٹی بہن ،چھوٹابھائی اور والدہ محترمہ اور میری بیوی بچے ستمبر 2000ء میںماموں جان کے گھر میں شفٹ ہوئے ۔ لیکن مکان کی چھتوں کی خستہ حالی کی وجہ سے ایک دن بھی قیام نہ کرسکے والدہ محترمہ اور چھوٹابھائی اور چھوٹی بہن ماڈل ٹاؤن بڑی باجی کی طرف شفٹ ہوگئے اور میں اپنے بیوی بچیوں کے ساتھ اپنے سسرال شفٹ ہوگیا اور مکان کی تعمیر کاکام شروع کروادیا جو اؤتقریباً آٹھ ماہ جاری رہا اور مئی 2001ء میں میرے بیوی بچے مستقل یہاں شفٹ ہوئے ، ماموں جان سے جب کبھی تعمیراتی کام میں مشورہ لیتے تووہ صاف جواب دے دیتے کہ رہنا تم نے ہے جیسے تمہاری مرضی ہے بناؤ۔ تعمیراتی کاموں میں ماموں جان نے کوئی پیسہ خرچ نہیں کیا اکثر رقم میں نے خرچ کی ہے اور کچھ رقم چھوٹے بھائی نے ۔ مکان کا پراپرٹی ٹیکس تعمیراتی ٹیکس اور بل وغیرہ میرے ہی ذمہ تھے۔ 2004ء میں نےماموں جان سے مکان کی پرانی رجسٹریاں وصول کرلی تھیں۔ ماموں جان کی اپنی رجسٹری کا بھی ابھی تک انتقا ل پٹوار خانہ میں درج نہیں ہواتھا۔ انتقال درج کروانے کے متعلق پوچھا تو پٹواری صاحب نے چالیس ہزار روپے ڈیمانڈ کیے۔ اور رجسٹری اپنے نام کروانے کے بیس ،پچیس ہزار علیحدہ ۔ تو اتنی رقم پاس تھی نہیں کہ مکان کو قانونی طور پر اپنے نام کروالیتے ۔ جو رقم تھوڑی بہت ہوتی وہ مکان کی تعمیر میں لگادیتے ۔ ماموں جان نے صاف کہہ دیا ہواتھاکہ مکان کے متعلق ہرقسم کا خرچ تمہارے ذمہ ہے ۔ چاہے وہ پرانے انتقال درج کروانے ککے متعلق ہو چاہے تعمیر کے متعلق اور چاہے ٹیکس وغیرہ کے متعلق ہو۔ ماموں جان نے گھر کے ایک کمرہ میں جنرل سٹور کھول رکھاتھا جو 2005ء میں بوجہ بیماری اور بڑھاپے کے ماموں نے سٹور ختم کرنے کا ارادہ کرلیاتھا۔ سٹور کا کچھ سامان میں نے کریدلیا۔ کیونکہ میر اپنا ارادہ جنرل سٹور چلانے کا تھا۔ جولائی 2005ء میں دوبارہ تعمیراتی کام شروع کروادیا۔جس میں سٹور کی تعمیر بھی شامل تھی۔ نیچے والے پورشن کاکام تقریباً ہوچکا ہے۔ اور اوپر والے پوشن کا کافی کام باقی ہے ۔ تعمیر کے بعد میراجنرل سٹور کو کرائے پر دینے کا ارادہ بن گیا۔ تو ماموں جان کہا کرتے تھے کہ کرایہ میں سے ایک ہزار مجھے بھی دے دیا کرنا تاکہ کرایہ اور پینشن کے ساتھ مجھے بھی سہولت رہے گی۔ اور جب کوئی کرایہ دار آتا تو ماموں جان اسے کہتے کہ کمال ہی نے سٹور کو کرایہ پر دینا ہے ۔ لہذا کمال ہ ی سے سٹور کے متعلق بات کرنا۔ اور اس طرح جنرل سٹور ماموں کی زندگی میں تقریباً 26 ماہ خالی رہا لیکن ماموں جان نے خود اس کو کرایہ پر نہ دیا۔ مجھ سے اس بات پر ناراض ہوا کرتے تھے کہ اگ ر تم جنرل سٹو چلاتے او سٹور کی کمائ میں سے گھر کی تعمیر کرواتے تو آج تمہیں مکان کی تعمیر کے لیے لوگوں سے قرض لینا نہ پڑتا اور کبھی کبھی یہ مشورہ بھی دیا کرتے کہ مکان کو بیچ ڈالو اور کرایہ کے گھر میں رہا کر کوئی اچھا ساکاروبار کرلو یا مکان کو بیچ کر کسی دور علاقے میں گھر بنا کر باقی رقم کاروبار میں لگا لو۔ اس طرح کی باتیں ماموں جان نے ہم سے ایک دودفعہ نہیں بلکہ کتنی مرتبہ کی تھیں ۔ اس تفصیل کے بعد آیا یہ مکان ہمار ہی رہے گا یا اور رشتہ داروں کا بھی اس میں حصہ ہوگا؟ قرآن وحدیچ کی روشنی میں فیصلہ فرماکر شکریہ کا موقع دیں ۔ بندہ پر احسان وعنایت ہوگی۔
نوٹ: ماموں جان تاحیات ہمارے ساتھ اسی مکان میں رہتے رہے ہیں۔
ماموں جان کی تین حقیقی بہنیں تھیں اور کوئی بائی نہ تھا۔ بڑی بہن تاریخ وفات5جنوری 2005ء۔ خاوند بھی انتقال کرچکے ہیں۔ اولاد 4بیٹیاں 3 بیٹے۔درمیانی بہن میری والدہ محترمہ تاریخ وفات 20 مئی 2006ء ۔ خاوند بھی انتقال فرماچکے ہیں۔ چھوٹی بہن تاریخ وفات 25ستمبر 1991ء۔ خاوند حیات ہے۔ اولاد 3بیٹے 2بیٹیاں۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ صورت میں ہبہ مکمل ہوچکا ہے۔ لہذا اس مکان میں دوسرے رشتہ داروں کا کوئی حصہ نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved