- فتوی نمبر: 21-392
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہم کچھ لوگ کاروبار کرتے ہیں ہم سے ایک مولوی صاحب نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ کاروبار کے کسی خاص ایک حصے میں کوئی شرکت نہیں کر سکتا مثلا یک بندے کا جنرل سٹور ہے تو اگر ایک شخص چاہے کہ جنرل اسٹور میں مثلا جو چینی فروخت ہوتی ہے اس میں شرکت کرے اس طرح کہ وہ شخص دکان والے کو چینی کے کام کے لیے پیسے دے دے یا چینی دے دے اور اس کا نفع آپس میں فیصد کے حساب سے تقسیم ہوجائے تو یہ صورت جائز نہیں ہے ۔لہذا اگر اس کے ساتھ شرکت کرنی ہے تو پورے کاروبار میں آدھی آدھی شرکت کرنی پڑے گی ۔تو کیا یہ بات درست ہے ؟کیا کاروبار کے ایک حصے میں شرکت نہیں کی جاسکتی؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
مذکورہ بات درست نہیں ہے کاروبار کے کسی ایک خاص حصے میں بھی شرکت کی جاسکتی ہے جبکہ اس کا سارا حساب کتاب الگ ہو البتہ جس صورت میں سرمایہ سارا انویسٹر کی طرف سے ہو تو وہ صورت مضاربت کہلاتی ہے اور جب سرمایہ دونوں کامشترکہ ہو وہ صورت شرکت کہلاتی ہے ۔ نیز جس صورت میں انویسٹر بجائے پیسوں کے چینی کی صورت میں انویسٹ کرے تو یہ صورت حنفیہ کے نزدیک ناجائز ہے البتہ مالکیہ اور حنابلۃ کے ایک قول کے مطابق جائز ہے ضرورت کے موقع پر اس قول کو لیا جاسکتا ہے اور اس صورت میں جس وقت شرکت کا معاہدہ ہوگا اس وقت چینی کی قیمت سرمایہ سمجھی جائے گی اور اس سے اوپر جتنے میں فروخت ہو وہ نفع شمار ہوگا۔
المغني (5/ 124)
وعن أحمد رواية أخرى أن الشركة والمضاربة تجوز بالعروض وتجعل قيمتها وقت العقد رأس المال قال أحمد : إذا اشتركا في العروض يقسم الربح على ما اشترطا وقال الأثرم : سمعت أبا عبد الله يسئل عن المضاربة بالمتاع قال : جائز فظاهر هذا صحة الشركة بها اختار هذا أبو بكر وأبو الخطاب وهو قول مالك و ابن أبي ليلى وبه قال في المضاربة طاوس و الأوزاعي و حماد بن أبي سليمان لأن مقصود الشركة جواز تصرفهما في المالين جميعا وكون ربح المالين بينهما وهذا يحصل في العروض كحصوله في الأثمان فيجب أن تصح الشركة والمضاربة بها كالأثمان ويرجع كل واحد منهما عند المفاصلة بقيمة ما له عند العقد كما إننا جعلنا نصاب زكاتها قيمتها
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved