- فتوی نمبر: 21-360
- تاریخ: 19 مئی 2024
- عنوانات: اہم سوالات > مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
ہمارا ٹرانسپورٹ کا کام ہے .
ایک شہر سے دوسرے شہر مال منتقل کرنے کے لئے ٹرک اڈے پرجس پرچی میں سامان کی تفصیلات اورطے شدہ کرایہ درج کرتے ہیں وہ پرچی بلٹی کہلاتی ہے ۔بعض اوقات کرایہ طے کرتے ہوئے سامان بک کروانے والا یہ شرط عائد کرتا ہے کہ کرایہ دو ماہ بعد ملے گا یہ شرط بھی بلٹی پر درج کی جاتی ہےاور پھر کرایہ دو ماہ بعد ملتا ہے ۔اکثر اڈے والوں کے پاس تمام ٹرک ذاتی نہیں ہوتے ، اسی طرح اکثر ٹرک مالکان اڈے والے نہیں ہوتے یعنی ان کے پاس کوئی اڈانہیں ہوتا،اس لیے وہ ٹرک سٹینڈ پر کھڑا کرکے مختلف اڈے والوں سے رابطے میں رہتے ہیں ،جب کوئی اڈے والا سٹینڈ سے ٹرک بلاتا ہے تو اسے سامان کے ساتھ تمام بلٹیاں بھی دیتا ہے ، اڈے والا ٹرک کے مالک سے اپنا کمیشن وصول کرکے ایک طرف ہو جاتا ہے آگے سامان کی بحفاظت ترسیل اور درج شرائط کے مطابق کرائے کی وصولی ٹرک کے مالک کا مسئلہ ہوتا ہے،ٹرک کےمالک کے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ مسلسل دو ماہ تک اپنے خرچہ پر ٹرک چلاتا رہے ،اسے مثلا کراچی سے لاہور آنے کے بعد دوبارہ کراچی جانے کے لیے فوری پیسے درکار ہوتے ہیں ، اس لیے وہ بلٹی اڈوں کے پاس موجود بیوپاریوں کو کم داموں فروخت کر دیتا ہے یعنی لاکھ کے 95 ہزار لے لیتا ہے۔
.1 ٹرک مالکان کا بیوپاریوں کے ہاتھ ایک لاکھ ادھار والی بلٹی نقد 95 ہزار کےعوض فروخت کرنا شرعاً درست ہے؟
بعض بیوپاری کٹوتی کی ماہانہ ایک رقم طے کر لیتے ہیں اور پھر وہ رقم ماہانہ کاٹ کر بلٹیوں کی جتنی رقم بھی بنتی ہے نقد ادا کر دیتے ہیں مثلا بیوپاری نے ایک ٹرک مالک سے ماہانہ 30000 کٹوتی طے کر لی ٹرک مالک بیوپاری کو ہر ماہ 30 ہزار روپے دے گااور اس مہینے میں جتنے بھی پھیرے لگیں اور جتنی مرضی بلٹیاں ادھار کی آجائیں وہ کم ہو ں یا زیادہ ،بیوپاری ٹرک کے مالک سے 30 ہزار سے زیادہ کی کٹوتی نہیں کرے گا اور اسے تمام بلٹیوں پر لکھی رقم اپنے پاس سےنقد ادا کردے گااور بعد میں مقررہ وقت پر مال بک کروانے والے سے جا کر لکھی ہوئی رقم لے لے گا۔
.2 کیا یہ صورت جائز ہے ؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ عموماً اڈے والے پابند ہوتے ہیں کہ ٹرک کے مالک سے فی ٹن کے حساب سے اپنا کمیشن علیحدہ لیں اوربلٹی پر مال بک کروانے والےسے بحث و تمحیص کے بعد جو اصل کرایہ طے ہو وہ درج کریں اس کے علاوہ وہ چھپا کر کوئی کمیشن نہ لیں۔
ليكن پهر بهی بعض اڈے والے کرایہ زیادہ طے کرتے ہیں لیکن بلٹی پر کم درج کرتے ہیں پھر چوری چھپے وہ زائد رقم مال بک کروانے والے سے وصول کرتے ہیں دوسری طرف ٹرک کے مالک کے سامنے قسمیں کھانے کو تیار ہوتے ہیں کہ انہوں نے بلٹی پر درج کرایہ کے علاوہ کچھ وصول نہیں کیا یوں وہ فی ٹن کے حساب سے اپنا کمیشن تو لیتے ہی ہیں مزید برآں وہ کچھ رقم چوری چھپے بھی بچا لیتے ہیں۔
- کیا ان کا ٹرک کے مالک کے علم میں لائے بغیر کچھ رقم بچا نا جائز ہے؟اور وہ رقم ان کے لئے حلال ہے یا ان کے ذمہ ہے کہ وہ رقم بھی ٹرک کے مالک کو واپس کریں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ مذکورہ صورت ناجائز ہے ۔
توجیہ: بلٹی کی پرچی خود ایسی چیز نہیں جس کی کوئی قیمت ہو بلکہ اصل اس کے پیچھے وہ رقم ہوتی ہے جو دینا طے ہو ،لہذا جب اس پرچی کو اس کے پیچھے موجود رقم سے کم میں بیچا جائے تو لازم آئے گا كہ پیسوں کو پیسوں کے بدلے کم وبیش میں بیچا جا رہا ہے جبکہ یہ سود اور ناجائز ہے ، نیز اس صورت میں بیع الدین من غیر من علیہ الدین بھی لازم آتی ہے جو کہ ناجائز ہے،لہذا مذکورہ صورت ناجائز ہے۔
2۔ مذکورہ صورت بھی ناجائز ہے ۔
توجیہ: مذکورہ صورت میں بھی وہی دونوں خرابیاں لازم آئیں گی جو پہلی صورت میں لازم آتی ہیں ۔
3۔ مذکورہ صورت میں چونکہ اڈے والا صرف اپنی کمیشن لینے کا حقدار ہوتا ہے اس لیے باقی سارا کرایہ ٹرک والے کا حق ہے اڈے والے کے لیے جھوٹ بول کر کرایہ کم لکھنا جائز نہیں لہذا باقی رقم بھی اس ٹرک والے کو دینا لازم ہے ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved