• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

سونے کی ادھار خریدوفروخت کی ایک ناجائز صورت

استفتاء

ایک سونے کی دکان میں یہ سکیم ہے کہ آپ گیارہ مہینے تک ہرمہینے پانچ ہزار وپے جمع کروائیں جو گیارہ مہینے پورے ہونے پر 55ہزارہوں گے تو سونے کی دکان والاسال پوراہونے پر آپ کو ساٹھ ہزار روپے کاسونا دے گاان کاکہنا یہ ہے کہ آخری مہینے کی قسط ہم خود بھردیں گے ۔کیا یہ سکیم جائز ہے۔

وضاحت مطلوب ہے سال بعد جو 60000 کا سونا ملے گا وہ کس وقت کے حساب سے ملے گا ؟یعنی سال بعد  جو سونے کا ریٹ ہوگا اس کے حساب سے ساٹھ ہزار کا جتناسونا بنتا ہوگا یا معاملہ شروع کرتے وقت کے ریٹ کے حساب سے 60 ہزار کاجو  سونا بنتا ہوگا وہ ملے گا  ،نیز سال بعد بہر صورت سونا ہی ملے گا یا چاہیں تو ساٹھ ہزار بھی لے سکتے ہیں ؟نیز سونا مہنگا ہو گیا یا سستا ہوگیا تو اس کا کیا حل ہوگا ؟

جواب وضاحت: اس وقت کے ریٹ کے حساب سے یعنی سال کے بعد جو ریٹ ہوگااس کےحساب سے سونا ملے گا۔ اتفاق تو اسی پر ہے کہ سال بعد سونا ہی ملے گا چاہے اس کا ریٹ کم ہو یا زیادہ ،لہذا سال ختم ہونے  کے بعد 60 ہزار میں جتنا سونا ملتا ہے وہی ملے گا اور لوگ  اسی گمان پر خریدتے ہیں کہ ریٹ  زیادہ ہو جائے گا ۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ اسکیم جائز نہیں۔

توجیہ :مذکورہ صورت کی حقیقت یہ ہے کہ 5،5 ہزارہر  مہینےقسط وار ایڈوانس دکاندار  کے پاس جمع کرواؤ اور وہ بارہویں مہینے میں 55 ہزار میں 60 ہزار کی قیمت کا سونا دے گا۔اس میں دو خرابیاں ہیں ایڈوانس پیمنٹ کے ساتھ صرف بیع سلم اور بیع استصناع جائز ہے،جبکہ مذکورہ صورت استصناع کی نہیں اور نہ ہی بیع سلم کی ہے،کیونکہ بیع سلم میں کل راس المال (پیمنٹ ) پر مجلس عقد میں قبضہ کرنا ضروری ہےجبکہ مذکورہ صورت میں مجلس عقد میں کل راس المال پر قبضہ نہیں ،بلکہ راس المال قسطوں کی صورت میں دیا جائے گا اور استصناع میں اگرچہ کل رأس المال پر مجلس عقد میں قبضہ کرنا ضروری نہیں لیکن اس میں طلب صنعت (کوئی چیز بنوانے کاکہنا)ہوتی ہے جو کہ مذکورہ صورت میں مفقود ہے۔دوسری خرابی یہ ہے کہ بارہ مہینے میں 60 ہزار کا کتنا سونا آئے گا؟ یہ مجہول  ہےاور اگر یہ کہیں کہ بارہویں مہینے میں جب 55 ہزار میں 60 ہزار کا سونا ملے گا اس وقت بیع منعقد ہوگی اور اس وقت سونے کی مقدار مجہول نہ ہو گی بلکہ معلوم ہو گی تو اس میں یہ خرابی ہے کہ ایڈوانس دی گئی رقم بظاہر استعمال ہوگی جس کی وجہ سےوہ رقم قرض بن جائے گی جبکہ قرض اور خرید و فروخت کے معاملے کو اکٹھا کرنے سے شریعت میں منع کیا گیا ہے خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ صورت جائز نہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved