• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

کیاکرکٹ کھیلناحرام ہے؟

استفتاء

کیاکرکٹ کھیلناحرام ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

کھیلوں کے بارے میں ضابطہ یہ ہے کہ جن کھیلوں میں کوئی دینی یا دنیوی فائدہ ہو اور انہیں اسی فائدےکی غرض سے کھیلا جائے محض کھیل برائے کھیل نہ ہو تووہ کھیل جائز ہیں بشرطیکہ ان میں دیگر ضروری شرائط کا بھی لحاظ رکھا گیا ہو مثلا جوا نہ ہو،دیگر فرائض مثلا نماز وغیرہ میں خلل نہ آئے وغیرہ و غیرہ،کرکٹ کا کھیل ایسا ہے کہ اس میں کچھ نہ کچھ ورزش ہےجوکہ ایک دنیوی فائدہ ہے لیکن یہ کھیل ایساہے کہ بعض اوقات تو اس میں ورزش کی نوبت سب کھلاڑیوں کو آجاتی ہے اور بعض اوقات صرف چند کھلاڑیوں کی ورزش ہوتی ہےجبکہ دوسرے بیکار کھڑے یا بیٹھے رہتے ہیں۔اس لئے بعض اہل علم (مثلاًمفتی عبدالواحد صاحب ؒ)کی رائے یہ ہے کہ اس کھیل سےاجتناب کرناضروری ہے جبکہ دیگر بعض اہل علم (مثلاً مفتی شفیع صاحب ؒ)کی رائے یہ ہے کہ اس کھیل کی گنجائش ہے اور یہ گنجائش بھی تب ہے جب کھیل برائے کھیل نہ ہو بلکہ مقصودورزش ہو اور اس کھیل پر جیتنے والوں کےلیے کوئی انعام بھی مقرر نہ ہو ورنہ مفتی شفیع صاحب ؒکے نزدیک بھی جائز نہیں۔لہذا احتیاط یہی ہے کہ کرکٹ کھیلنے سے پرہیز کیا جائے اور اگر کوئی کبھی کبھار ورزش یا تفریح کی غرض سے کھیل لے تو اس پر زیادہ داروگیر بھی نہ کی جائے۔

شامی(9/663)میں ہے:

ولا يجوز الاستباق في غير هذه الأربعة كالبغل بالجعل وأما بلا جعل فيجوز في كل شيء

وتمامه في الزيلعي اه  ومثله في الذخيرة و الخانية والتاترخانية۔

امدادالمفتیین (2/831)میں ہے:

(سوال 905) لہوولعب ممنوعہ میں کس قسم کے کھیل داخل ہیں لہوولعب جس کی ممانعت شریعت میں

آئی ہے اس کی کیا شناخت ہے؟انگریزی کھیل مثلاً ٹینس،فٹ بال،کرکٹ،اور اسی قسم کے دوسرے کھیل کھیلنا کیسا ہے؟

(الجواب) قال في الدر المختار من الكراهية وكره كل لهو لقوله عليه السلام كل لهوالمسلم حرام الا ثلاثة ملاعبة اهله وتاديبه لفرسه ومناضلة بقوسه۔قال الشامي اي كل لعب وعبث الى قوله والمزمار والصبح والبوق فانها كلها مكروهة لانهازي الكفار۔الخ شامی ص ٢٧٥مصری جلد٥۔وفي القهستاني عن الملتقط من لعب بالصولجان يريد الفروسية يجوز وعن الجواهر قدجاء الاثر في رخصة المصارعة لتحصيل القدرة على المقابلة دون التلهي فانه مكروه(شامی کتاب الحظروالاباحة ص٢٨١ج٥) وفي الدر المختار والمصارعة ليست بدعة الا للتلهي فتكره وفي الشامی اقول قدمنا عن القهستاني في جواز اللعب بالصولجان وهو الكرةللفروسية و في جواز المسابقة بالطير عندنا نظر وكذا في جوازمعرفة ما في اليد واللعب بالحاثم فانه لهو مجرد (شامی جلد٥ص٢٨٢)

احادیث جو اس بارے میں وارد ہوئی ہیں ان سے نیز عبارت فقہیہ مندرجہ بالا سے کھیل کے بارے میں تفصیلات ذیل مستفید ہوئیں ۔(الف)وہ کھیل جس سے دینی یا دنیوی کوئی معتدبہ فائدہ مقصود نہ ہو وہ ناجائز ہے اور وہی حدیث کا مصداق ہے (ب)جس کھیل سے کوئی دینی یا دنیاوی فائدہ معتد بہا مقصود ہو وہ جائز ہے بشرطیکہ اس میں کوئی امرخلاف شرع ملا ہوا نہ ہو اور منجملہ امور خلاف شرع تشبہ بالکفار بھی ہے۔(ج)جس کھیل سے کوئی فائدہ دینی یا دنیاوی مقصود ہو لیکن اس میں کوئی ناجائز اور خلاف شرع امر مل جائے تو وہ بھی نا جائز ہو جاتا ہے جیسے تیر اندازی یا گھوڑدوڑ وغیرہ جب کہ اس میں قمار کی صورت پیدا ہو جائے ،دونوں طرف سے کچھ مال کی شرط لگائی جائے تو وہ بھی ناجائز ہو جاتی ہیں یا کوئی کھیل کسی خاص قوم کفارکامخصوص سمجھا جاتا ہو وہ بھی ناجائز ہوگا۔التشبہ الممنوع ۔

لہذا معلوم ہوا کہ گیند کے کھیل خواہ کرکٹ وغیرہ ہو یا دوسرے دیسی کھیل فی نفسہٖ جائز ہیں کیونکہ ان سے تفریح طبع اورورزش و تقویت ہوتی ہے جو دنیاوی اہم فائدہ بھی ہے اور دینی فوائد کے لئے سبب بھی لیکن شرط یہی ہے کہ یہ کھیل اس طرح پر ہوں کہ ان میں کوئی امر خلاف شرع اور تشبہ بالکفار نہ ہو لباس اور طرز وضع میں انگریزیت نہ ہو اور نہ گھٹنے کھلے ہوئے ہوں نہ اپنے اور نہ دوسروں کے اور نہ اس طرح اشتغال ہو کہ ضروریات اسلام نماز وغیرہ میں خلل آئے اگر کوئی شخص ان شرائط کے ساتھ کرکٹ ٹینس کھیل سکتا ہےتو اس کے لئے جائز ہے ورنہ نہیں۔ آج کل چونکہ عموما یہ شرائط موجودہ کھیلوں میں موجود نہیں اس لئے ان کو ناجائز کہا جاتا ہے۔

(تکملہ فتح الملہم (4/258)میں ہے:

فالضابط في هذا الباب … أن اللهو المجرد الذي لا طائل تحته، ولیس له غرض صحیح مفید في

المعاش ولا المعاد حرامٌ أو مکروہتحریمًا … وما کان فیه غرض ومصلحة دینیة أو دنیویة، فإن ورد النهي عنه من الکتاب أو السنة … کان حرامًا أو مکروها تحریمًا … وأما ما لم یرد فیه النهي عن الشارع، وفیه فائدۃ ومصلحة للناس، فهو بالنظر الفقهي علی نوعین: الاول: ما شهدت التجربة بأن ضرره أعظم من نفعه، ومفاسدہ أغلب علی منافعه، وأنه من اشتغل به ألهاہ عن ذکر الله وحدہ، وعن الصلوات والمساجد، التحق ذٰلک بالمنهي عنه، لاشتراک العلة، فکان حرامًا أو مکروها۔ والثاني: ما لیس کذٰلک، فهو أیضًا إن اشتغل به بنیة التلهي والتلاعب فهو مکروہ۔وإن اشتغل به لتحصیل تلک المنفعة، وبنیة استجلاب المصلحة فهو مباح؛ بل قد یرتقي إلی درجة الاستحباب أو أعظم منه… وعلی هذا الاصل فالالعاب التي یقصد بها ریاضة الابدان أو الاذهان جائزۃ في نفسها ما لم تشتمل علی معصیةأخریٰ، وما لم یؤد الانهماک فیها إلی الإخلال بواجب الإنسان في دینه ودنیاہ۔

فتاوی ہندیہ(5/352)میں ہے:

المصارعة بدعة وهل تترخص للشبان قال رحمه الله تعالى ليست ببدعة وقد جاء الأثر فيها إلا أنه ينظر إن أراد بها التلهي يكره له ذلك ويمنع عنه وإن أراد تحصيل القوة ليقدر على المقاتلة مع الكفرة فإنه يجوز ويثاب عليه۔۔۔۔۔ إذا أراد التطرب والتلهي يمنع عنه ويزجر وإن كان مقاتلا وأراد به القوة والقدرة عليها جاز ذلك كذا في جواهر الفتاوى۔

امدادالاحکام (4/367)میں ہے:

کبڈی اور گیند بلا وغیرہ سے کھیلنا اگر محض کھیل اور لہو ولعب کی نیت سے ہو تو ناجائز ہے اور اگر قوت اور شجاعت بڑھانے کی نیت سے ہو تو جائز ہے۔

قال في الدر:والمصارعة ليست بدعةالا للتلهي فتكره برجندي واما السباق بلا جعل فيحل في كل شيء كما ياتي

أقول قدمنا عن القهستاني جواز اللعب بالصولجان وهو الكرة للفروسية وفي جواز المسابقة بالطير عندنا نظر وكذا في جواز معرفة ما في اليد واللعب بالخاتم فإنه لهو مجرد وأما المسابقة بالبقر والسفن والسباحة فظاهر كلامهم الجواز ورمي البندق والحجر كالرمي بالسهم وأما إشالة الحجر باليد وما بعده فالظاهر أنه إن قصد به التمرن والتقوي على الشجاعة لا بأس به۔

جواہرالفقہ(4/573)میں ہے:

جن کھیلوں سے کچھ دینی یا دنیاوی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں،وہ جائز ہیں،بشرطیکہ انہیں فوائد کی نیت سے ان کو کھیلا جائے،محض لہوولعب کی نیت نہ ہو،لیکن اس کی بازی پر کوئی معاوضہ یاانعام مشروط مقرر کرنا جائز نہیں۔مثلاً گیند کاکھیل کہ اس سے جسمانی ورزش ہوتی ہے۔

فتاویٰ محمودیہ یونیکوڈ(39/239)میں ہے:

سوال:۔ ایک آد می یہ کہتاہے کہ میں صرف دل کو بہلانے کے لئے تاش کھیلتا ہو ں، جس میں کسی بھی قسم کی کوئی شرط نہیں رکھی جاتی ، جیسا کہ دوسرے کھیل ہیں مثلاً فٹ بال ، اور والی بال ،ہاکی ، کرکٹ وغیرہ تواس کے غلط ہونے کی کیا وجہ ہے؟ جبکہ اس میں کوئی شرط وغیرہ نہیں لگائیجاتی ، توکیا اس کے لئے تاش کھیلنا اس صورت کے ساتھ جائز ہے ؟

الجواب :کرکٹ، ہاکی، وغیرہ میں ایک غرض صحیح کے پیش نظر اجازت ہے ، (یہ سب ممنوع محض نہیں)بخلاف تاش کے کہ اس میں یہ غرض صحیح موجود نہیں۔۱؂ نیز یہ دوسروں کے لئے ذریعہ قما ربن سکتاہے ۔

مسائلِ بہشتی زیور (2/481)میں ہے:

اگر محض کھیل برائے کھیل یا وقت گزاری ہو تو یہ جائز کھیل بھی جائز نہیں چنانچہ اگر کوئی شخص کشتی،تیراکی،دوڑ،نشانہ بازی،محض لہوولعب کی نیت سے کرے تو یہ بھی مکروہ ہوں گے۔

مسائل بہشتی زیور437/2)میں ہے:

کرکٹ کے کھیل میں اگرچہ کچھ ورزش ہوتی ہے لیکن اس کھیل میں فائدہ کے مقابلہ میں نقصان زیادہ ہیں مثلا دو کھیلنے والوں کے علاوہ باقی پوری ٹیم بیٹھی رہتی ہے اور چونکہ یہ کھیل زیادہ لمبا ہوتا ہے اس لئے وقت بھی زیادہ ضائع ہوتا ہے۔ اسی طرح بہت سے فیلڈر بھی یونہی گهنٹوں کھڑے رہتے ہیں ۔اسی طرح کرکٹ میچ کا مقابلہ دیکھنے والے بھی بے حساب وقت ضائع کرتے ہیں. اس لئے اس کھیل سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved