- فتوی نمبر: 4-52
- تاریخ: 12 جون 2011
- عنوانات: مالی معاملات > خرید و فروخت
استفتاء
کھانے میں جائفل اور جاوتری ڈالنے کا حکم کیا ہے؟ اور کیا یہ پنساری کی دکان پر فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟ یا کہ اسے کھانا اور فروخت کرنا شراب کی طرح حرام ہے؟
الحمد للہ! جائفل اور جاوتری کا پودا قدیم زمانے سے معروف ہے، اس کا پھل ایک قسم کے مسالحہ جات کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جو کھانے کو خوشذائقہ بنا تا ہے اور اسے اچھی خوشبو دیتا ہے۔ اسے قدیم مصری لوگ معدہ کی درد اور ہوا خارج کرنے کے لیے استعمال کرتے تھے۔ اس کا پودا تقریبادس میٹر بلند ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ سبز رہتا ہے ، اس کا پھل ناشپاتی کے مشابہ ہے۔ اور پھل پک جانے کی صورت میں اس کا چھلکا سخت ہوجاتا ہے۔ اور یہ پھل عربی میں جوزہ الطیب اور اردو میں جائفل یا جائپھل کے نام سے پہچانا جاتا ہے اور اسے جوز ہوا بھی کہتے ہیں ۔ یہ خط استواء کے علاقے اور برصغیر اور انڈونیشیا اور سیلان میں پیدا ہوتا ہے۔
اس کی تاثیر تقریبا حشیش کی تاثیر جیسی ہے اور زیادہ کھانے سے کانوں میں سیٹیاں بجنے لگتی ہیں اور شدید قسم کی قبض ہونے کے لیے ساتھ پیشاب رک جاتا ہے اور قلق و پریشانی پیدا کرتا ہے، اور مرکزی عصبی آلہ میں اتار پیدا کردیتا ہے جس کے نتیجہ میں موت آسکتی ہے۔ رہا اس کا حکم تو علماء کرام اس میں دو قسم کی رائے رکھتے ہیں:
جمہور علماء کرام تو اس کی قلیل یا کثیر مقدار استعمال کرنے کی حرمت کے قائل ہیں۔ اور کچھ دوسرے علماء قلیل سی مقدار جبکہ وہ کسی اور مواد کے ساتھ ملائی گئی ہو استعمال کرنے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ ابن حجر الہیثمی رحمہ اللہ متوفی ( 974ھ ) جوزة الطیب کے بارہ میں کہتے ہیں:
” جب اہل حرمین اور اہل مصر کے مابین اس کے متعلق نزاع پیدا ہوا اور اس کی حلت اور حرمت کے بارہ میں آراء مختلف ہو گئیں تو یہ سوال کیا گیا : آیا ائمہ میں سے کسی امام یا ان کے مقلدین میں سے کسی ایک نے جائفل کے کھانے کی حرمت کا کہا ہے؟ تو جواب کا حاصل یہ تھا کہ جیسا کہ شیخ االاسلام ابن دقیق العید نے بیان کیا ہے” یہ نشہ اور مسکر ہے”۔ اور ابن العماد نے مبالغہ کرتے ہوئے اسے حشیش پر قیاس کرتے ہوئے حشیش ہی قرار دیا۔ مالکی اور شافعی اور حنابلہ سب اس پرمتفق ہیں کہ یہ مسکر اور نشہ آور ہے، اس لیے یہ عمومی نص کے تحت آتا ہے” ہر مسکر اور نشہ آور خمر ہے اور ہر خمر حرام ہے”۔
اور حنفی حضرات کہتے ہیں کہ یہ یا تو مسکر اور نشہ آور ہے یا پھر مخدر اور سن کر دیتا ہے، اور یہ سب کچھ عقل کو خراب کردیتا ہے، تو یہ ہر حالت میں حرام ہے”۔
دیکھیں: الزواجر عن اقتراف الکبائر ( 1/ 212 ) اور المخدرات تالیف محمد عبدا لمقصود (90)
میڈیکل علوم کے اسلامی بورڈ کی کانفرنس جو کویت میں 22 سے 24 ذو الحجہ 1415 ھ الموافق 24 مئی 1995 میلادی میں” بعض طبی مشکلات کے متعلق اسلامی رؤیت غذاء اور ادویات میں حرام اور نجس مواد” کے موضوع پر مندددعقد کانفرنس میں طے پایا:
“سن اور نشہ والےمواد حرام ہیں، ان کا تناول کرنا حلال نہیں، لیکن صرف متعین کردہ طبی علاج کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، اور پھر اتنی ہی مقدار استعمال کرنا جائز ہے جو ڈاکٹر متعین کریں اور وہ بعینہ طاہر اور پاک ہوں۔
اور جوزہ الطیب یا جائفل کی قلیل سی مقدار جو نہ تو عقل میں فتور کا باعث بنتی ہو اور نہ ہی نشہ کا باعث ہو کھانے میں بطور مصالحہ اور ذائقہ اور خوشبو کے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شیخ ڈاکٹر وہبت الزحیلی کہتے ہیں:
” کھانا وغیرہ کی اصلاح کے لیے قلیل سی مقدار میں جوزة الطیب یا جائفل استعمال کرنے میں کوئی مانع نہیں، لیکن کثیر مقدار حرام ہے، کیونکہ یہ نشہ آور ہے، لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ اسے بالکل استعمال نہ کیا جائے، چاہے یہ سی اور چیز میں بھی قلیل سی مقدار سے ملایا گیا ہو۔ کیونکہ حدیث میں ہے” جس کی زیادہ اور کثیر مقدار ناشہ آور ہوتو اس کی قلیل مقدار بھی حرام ہے”۔
آپ کے علم میں ہونا چاہیے کہ: حرمین شریفین میں جوزة الطیب اور جائفل کا پھل اس کے بیج اور خاص کر اس کا پاؤڈر لانا ممنوع ہے، صرف دوسرے مصالحہ جات میں اس کا پاؤڈر مکس کر کے لانے کی اجازت ہے اور اس کی مقدار بیس فیصد سے زائد نہیں ہونی چاہیے۔ سائل: علی عثمان
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
جائفل اور جاوتر کا دوا اور غذا میں اس قدر استعمال جو نشہ نہ لائے جائز ہے۔
قا العلامة الشامي: أقول الظاهر أن هذا خاص بالأشربة المائعة دون لجامد كالبنج و الأفيوم فلا يحرم قليلها بل كثيرها المسكر و به صرح ابن حجر في التحفة وغيره. و هو مفهوم من كلام أئمتنا لأنه عدها من الأدوية المباحة وإن حرم لسكر منها بالاتفاق كما نذكره ول نر أحداً قال بنجاستها و لا بنجاسة نحو الزعفران مع أن كثيره مسكر ولم يحرمو ا أكل قليله أيضا و يدل عليه أنه لا يحد بالسكر منها كما يأتي بخلاف لمائعة فإنه يحد و يدل عليه أيضا قوله في غرر الأفكار: و هذه الأشربة عند محمد و موافقيه كخمر بلا تفاوت في الأحكام و بهذا يفتى في زماننا.فخص الخلاف بالأشربة، وقال بعد سطر: و الحاصل أنه لا يلزم من حرمة الكثير المسكر حرمة قليله و لانجاسته مطلقاً إلا في المائعات لمعنى خاس بها. أما الجامدات فلا يحرم منها إلا الكثير المسكر و لا يلزم من حرمته نجاسته كالسم القاتل فإنه حرام مع أنه طاهر هذا ما ظهر لفهمي القاصر و سنذكره ما يؤيده و يقويه و يشيده. (10/ 44)
و قال بعد ورقة: فهذا صريح فيما قلنا مؤيد لما سبق من تخصيص مامر منأن ما أسكر كثيره حرم قليله بالمائعات و هكذا يقال ف غيره من الأشياء الجمامدة المضرة في العقل وغيره يحرم تناول القدر المضر منها دون القليل النافع لأن حرمتها ليست لعينها بل لضررها. (10/ 47 ). فقط واللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved