الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
میرا سوال ہے کہ میں دھوبی سے کپڑے واش کرواتاہوں وہ مسلم اور غیر مسلم کے کپڑے ایک ساتھ واش کرتا ہے کیا میرے کپڑے پاک ہوں گے یا نہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ دھوبی سے دھلوائےگئے کپڑے پاک ہوجاتے ہیں ، جبکہ بعض اہل علم کا موقف یہ ہے کہ ناپاک کپڑے پاک نہیں ہو ں گے جب تک پاک ہونے کا یقین نہ ہو ۔لہذا بہتر یہ ہے کہ ناپاک کپڑے دھوبی سے نہ دھلوائے جائیں یا کم ازکم جس جگہ ناپاکی لگی ہواتنی جگہ دھوکر دھوبی کو دئیے جائیں ۔ تا ہم اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر بھی گنجائش ہے۔(ماخذ :تبویب)
امدادالفتاوی (1/135) میں ہے :
سوال: یہاں سرکار کی طرف سے دھوبیوں کو کپڑے دھونے کے واسطے سرکاری حوض چھوٹے چھوٹے بنوادیئے گئے ہیں ،ان میں وہ لوگ کپڑے دھوتے ہیں، پانی ان حوضوں میں کنویں سے بھرا جاتا ہے ،بہت سے کپڑے یکبارگی ان حضوں میں دھونے کوڈالے جاتے ہیں ،اس میں پاک اور ناپاک سب ہوتے ہیں ۔ ایسے حوض کے دھوئے ہوئے کپڑے پاک ہوں گے یا ناپاک ؟ اور ان پر نماز ہوجاوےگی یانہیں ؟ دھوبی کا بیان ہے کہ وہ تین مرتبہ پانی بدل کر دھوتا ہے، مگر اس سے اطمنان نہیں ہوتا ،اس کے علاوہ ہندوں دھوبی بھی ہوتے ہیں ،جن کوپاک کرنے کاطریقہ بھی معلوم نہیں ،ندی یہاں سے تین کوس پر ہے ،اس وجہ سے بہت کم دھوبی وہاں کپڑے دھونے جاتے ہیں ۔حوض کی پیمائش اتنی ہوتی ہے کہ ان کاشمار قلتین میں ہوسکتاہے جو کہ شائد امام اعظم ؒ کے نزدیک جائز نہیں ہے ۔
جواب: یہ مسئلہ ائمہ کے درمیان مختلف فیہ ہے سخت ضروت میں جیسا کہ سورت مسئولہ میں ہے دوسرے امام کے قول لینا جائز ہے ، اس لئے جوشخص دوسرے طریقہ سے نہ دھلواسکے اس کے لئے پاکی کاحکم کیا جاوےگا۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند (1/227) میں ہے :
سوال:اگر ناپاک کپڑا دھوبی کے یہاں دے دیا جائے توپاک ہوجائے گا یا نہ ؟
الجواب: پاک ہوجاوےگا۔
فتاوی عثمانی (1/330) میں ہے :
سوال : کپڑے جو کہ نجس ہوتے ہیں ان کے بارے طہارت کے اصول کے مطابق پاک پانی سے تین مرتبہ سے نچوڑنے کے احکام ہیں ، جبکہ آج کل دھوبی گندے نالوں میں یا حوض وغیرہ میں دھوتے دیکھے جاتے ہیں ،پھر گندی جہگوں پر وہ کپڑے سکھاتے ہیں ، کیا ایسے دھلے ہوئے کپڑے پہن کر نماز پڑھی جاسکتی ہے ؟
جواب: اصل میں تو کسی دھوبی کو مقرر کرتےوقت اس بات کا اطمنان کرنا چاہیے کہ وہ کپڑے پاک کرکے دھوتا ہے یا نہیں ؟لیکن جب تک ناپاک پانی سےدھونے کا صرف اندیشہ ہو، اس وقت تک ابتلاء عام کی بناء پر طہارت ہی کا حکم کیا جاتاہے۔
احسن الفتاوی (2/84) میں ہے :
سوال : قرآن وسنت میں ایسے کپڑے کے بارے میں کیا حکم ہے جوکہ ناپاک ہو اور اس کو ایسے دھوبی کے بھیجا جائے جس کے دھونے کے پانی کے بارے میں پاکی کاکچھ علم نہ ہو وہ کپڑا دھوبی کے یہاں سے دھل کر واپس آنے کے بعد پاک سمجھا یا ناپاک ؟ ایسے کپڑے پہن کر نماز اداکرنے سے نماز ہوگی یانہیں ؟ اگر نمازنہیں ہوگی تو جونمازیں ایسے کپڑوں پڑھی جاچکی ہیں ان کا کیاحکم ہے؟
جو کپڑا دھوبی کو پاک دیاگیا ہے وہ دھلنےکے بعد بھی پاک رہے گا اور جو کپڑا ناپاک دیا گیا ہے وہ ناپاک رہے گا ، اس لئے شریعت کا اصول ہے ” الیقن لایزول الا بالیقین ” لہذا جب تک پاک کپڑے کی ناپاکی کا اور ناپاک کپڑے کی طہارت کا یقین نہ ہوگا ،وہ اپنی اصل حالت پر برقرار رہیں گے ، ناپاک کپڑے میں اگر نماز پڑھ لی تو ادانہ ہوگی اورپڑھی ہوئی نمازوں کا اعادہ ضروری ہے ۔ بضروت ابتلاء قلتین پر عمل کی گنجائش ہے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved