- فتوی نمبر: 19-249
- تاریخ: 25 مئی 2024
- عنوانات: مالی معاملات > منتقل شدہ فی مالی معاملات
استفتاء
میں ایک گورنمنٹ ٹیچر ہوں اور میری شادی 2017 میں ہوئی۔اب میرے دو بیٹے ہیں۔ والد صاحب نے کسی گھریلو معاملہ پر مجھے گھر سے نکال دیا تھا اس وقت میرا بھائی بھی سعودی عرب سے واپس آیا تھا۔میرے والد صاحب پرچون کی دکان کرتے ہیں۔میرے دو بھائی والد صاحب کے ساتھ دکان میں ہاتھ بٹاتے ہیں۔ان کا کاروبار بہت کامیاب جا رہا ہے۔میرے بھائی نے سعودی عرب میں نشے والی گولیوں کے کاروبار سے لاکھوں کمائے ۔ میں نےسنا ہے اس طرح کمائی ہوئی دولت حرام ہوتی ہے۔ابھی اس نے نشہ کی گولیوں کاروبار چھوڑ دیا ہےلیکن مجھے اس کی دولت کا کچھ پتا نہیں تھا۔میں پانچ مہینے بعد گھر واپس آیا تو میرے معدے کی بیماری میں اضافہ ہونے کی وجہ سے پشاور میں ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا اور ٹیسٹ میں معدہ میں کینسرکا رزلٹ آیا۔ ڈاکٹر نے میرے علاج پر 23 لاکھ روپے کا اندازہ لگایا۔اس وقت مجھے پتہ چلا کہ بھائی اور والد صاحب میرے علاج پر 23 لاکھ خرچ کرنے پر راضی ہیں۔ لیکن بعد میں ٹیسٹ میں بیماری تھوڑی کم آئی جس کی وجہ سے اب میرا علاج تو فری ہے لیکن آنے جانے کا کرایہ،کھانا پینا،ہوٹل کا کرایہ وغیرہ بھائی کےاسی پیسے سے ہے۔ بھائی نے میرے لئے ایک موبائل بھی لیا ہے،اب اسی پیسے سے گھر بھی بنا رہا ہے۔
۱) تو میرا اس کے ساتھ اس گھر میں رہنا کیسا ہے؟
بھائی نے ابو کے کاروبار میں کئی لاکھ روپے ڈالے ہیں،دکان سے گھر کی ضروریات زندگی وغیرہ پوری ہو رہی ہیں۔
۲) میرا ان پیسوں سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟
میری تنخواہ 24000روپے ہے۔میری تنخواہ اتنی نہیں کہ میں علیحدہ رہ کر اس میں کرایہ وغیرہ ادا کروں یا بیوی بچوں کے علاج معالجہ اور باقی ضروریات زندگی پوری کروں۔ اگر میں اپنی تنخواہ سے کچھ روپے گھر دیا کروں تو تب میرے لئے کیا حکم ہے؟ اور اگر تنخواہ نہ دوں تب میرے لئے کیا حکم ہے۔ اللہ آپکو اسکا بدلہ دے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
نشہ والی گولیوں کی خرید و فروخت اگرچہ مکروہ اور قانونا ممنوع ہے تا ہم اگر کسی نے بیچ کر کمائی کر لی ہو تو اسے حرام نہیں کہا جائے گا لہذا اس آمدنی سے فائدہ اٹھاناٹھیک ہے۔ اور اس گھر میں رہنا بھی جائز ہے۔
رد المحتار على الدر المختار جلد نمبر 10 صفحہ نمبر 35 میں ہے:
"(وصح بيع غير الخمر) مما مر، ومفاده صحة بيع الحشيشة والأفيون
قال ابن عابدین: قوله ( وصح بيع غير الخمر ) أي عنده خلافا لهما في البيع والضمان لكن الفتوى على قوله في البيع وعلى قولهما في الضمان۔۔۔۔۔ثم ان البیع وان صح لكنه یکرہ کما فی الغاية”
فتاوی محمودیہ جلد نمبر 24 صفحہ نمبر 71میں ہے:
افیون کی تجارت اوراس کی آمدنی کاحکم
سوال:۔ہمارے علاقے میں خاص طورسے ہمارے گاؤ ں میں لوگ افیون کا کاروبار کرتے ہیں، اسی کاروبار سے جو رقم حاصل ہوئی، زمین ،کھیت اورباغ خریدے اب ان میں کاشت بھی ہوتی ہے ، اورافیون کاکاروبار بھی جاری ہے ، کیا ایسے لوگوں کی آمدنی درست ہے ، ان کے یہاں کھانا کیساہے ؟ اگرافیون کی کمائی سے مسجد ،سرائے ،یادینی مدارس میں چندہ دیں تو کیسا ہے ؟
الجواب حامداًومصلیاً
افیون کی تجارت مکروہ ہے افیون کی آمدنی سے جوزمین خرید کر اس میں کاشت کرتے ہیں اس کا شت کی آمدنی کوحرام نہیں کہا جائے گا، ایسی آمدنی سے چندہ لینا بھی درست ہے ، اوران کے یہاں کھاناپینابھی درست ہے ۔
© Copyright 2024, All Rights Reserved