- فتوی نمبر: 29-133
- تاریخ: 29 جولائی 2023
- عنوانات: عبادات > نماز > نماز کی شرطوں کا بیان
استفتاء
میری عمر 60 سال سے زائد ہےاور پچھلے تیس سال کے عرصے سے انتہائی بیماری کی حالت میں زندگی بفضل الله بسر کررہا ہوں۔ آنتوں کی عدم موجودگی میں مجھے طاقت کے لیے دن میں کئی بار ڈرپ کے ذریعے سے قوت ملتی ہے، اسی طرح دیگر متعدد بیماریوں میں رہتا ہوں لیکن الحمد للہ نماز کے اہتمام کی پوری کوشش کرتا رہتا ہوں۔
آخری بیماری یہ ہوئی کہ میرا جگر ناکارہ ہوگیا ۔ جگر سے ایک مادہ Bile کا اخراج ہوتاہے جس کی غیر موجودگی میں دیگر پریشانیوں کے ساتھ بڑی پریشانی خارش کی ہوتی ہے۔ دن بھر مختلف اوقات میں سوتے جاگتے خارش ہوتی رہتی ہے اور اس خارش کو ختم کرنے کی کوشش میں جسم چھلنی ہوجاتا ہے۔نیز اسی کے ساتھ یہ مسئلہ تو دیرینہ ہے کہ میرا خون بہت پتلا ہے جس کے سبب اگر ایک دفعہ خون جاری ہوجائے تو خون رکنے میں خاصا وقت لگ جاتا ہے بلکہ اس کو روکنے کے لیے پٹی وغیرہ کرنا ضروری ہوجاتا ہے۔جسم پر اکثر اوقات پٹیاں تو رہتی ہی ہیں لیکن خارش کی بیماری کی وجہ سے اب صورتحال یہ ہوگئی ہے کہ بسا اوقات مجھے علم بھی نہیں ہوتا ہے اور میرا خون جاری ہوتا ہے ۔ کافی وقت کے بعد دیکھتا ہوں تو خون کے نشان سے پتہ چلتا ہے کہ خون تو کافی بہہ چکا ہے۔ اس دوران میں یہ علم بھی نہیں ہوتا ہے کہ یہ خون نماز سے قبل جاری ہوا تھا یا بعد میں۔
اس صورتحال سے خاصی پریشانی رہتی ہے اور بسا اوقات کئی کئی دفعہ وضو اور نماز دہرانے کی نوبت آجاتی ہے۔
اس سلسلہ میں رہنمائی کی ضرورت تھی کہ:
1۔ کیا ایسی صورتوں میں جن میں مجھے خون کے بہنے کا علم نہ ہو، میری نماز ہوجاتی ہے یا نہیں؟ خون کے بہنے کے وقت کا اندازہ لگانا مشکل ہوتا ہے کیونکہ کئی مقامات پر پٹیاں ہوتی ہیں اور پتہ نہیں ہوتا ہے کہ خون کہاں سے بہا ہے؟نماز کے بارے میں مستقل پریشان رہتا ہوں کہ پتہ نہیں نماز یں قبول ہو بھی رہی ہیں یا نہیں؟
2۔کپڑے پر خون لگنے کی صورت میں کس حد تک ان خون آلودہ کپڑوں میں نماز پڑھی جاسکتی ہے؟
3۔ بوجہ اکیلا رہنے کے، بار بار وضو کرنے کے لیے اکثر ضعف کی وجہ سے اٹھنے میں بہت دقت ہوتی ہے تو کیا شریعت میں وضو سے متعلق اس صورتحال میں کوئی تخفیف ممکن ہے؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔مذکورہ صورت میں جب آپ نے آخری مرتبہ خارش کی ہو اس وقت سے خون نکلنے کا حکم لگائیں گے لہٰذا اگر آخری مرتبہ خارش نماز پڑھنے کے بعد کی ہو تو نماز دہرانے کی ضرورت نہیں اور اگر نماز پڑھنے سے پہلے کی ہو تو نماز دہرائی جائے گی بشرطیکہ خون بہنے کی مقدار میں ہو۔ تاہم اگر صورتحال ایسی ہو کہ نماز کے دوران آپ کو دوبارہ اتنا خون لگ جائے گا جتنی مقدار معاف نہیں یا کپڑوں یا پٹی کا بدلنا بہت دشوار ہو تو پھر بدلنے کی ضرورت نہیں۔
2۔کپڑے پر لگا خون اگر ہتھیلی کے گہراؤ یعنی 5.94 مربع سم کے رقبے کے برابر یا اس سے کم ہو تو برابری کی صورت میں مکروہ تحریمی اور کم ہو تو مکروہ تنزیہی ہے تاہم دونوں صورتوں میں نماز ہوجائے گی البتہ مکروہ تحریمی کی صورت میں اس نماز کا لوٹانا واجب ہےاور اگر مذکورہ پھیلاؤ سے زیادہ خون لگ گیا ہو تو اس کو دھوئے بغیر نماز نہ ہوگی۔
3۔جیسا کہ پہلے جواب میں بتایا گیا کہ اگر آخری خارش نماز کے بعد کی ہو تو اس صورت میں نماز لوٹانے کی چونکہ ضرورت نہیں اس لئے بار بار وضو کرنے کی مشقت نہیں اٹھانی پڑے گی پھر بھی اگر آپ کو مشقت ہو تو اگر کوئی آپ کی خدمت کرنے والا میسر ہو جو آپ کو وضو کرادیا کرے یا اجرت دے کر کوئی خدمت گار آپ رکھ سکتے ہیں تو آپ کو وضو ہی کرنا ہوگا اور اگر ان دونوں میں سے کوئی صورت بھی نہ ہو سکے اور وضو کرنے میں مشقت ہو تو تیمم کر سکتے ہیں۔
1۔ بدائع الصنائع (1/78) میں ہے:
وروى ابن رستم في نوادره عن أبي حنيفة أنه إن كان دما لا يعيد، وإن كان منيا يعيد من آخر ما احتلم؛ لأن دم غيره قد يصيبه، والظاهر أن الإصابة لم تتقدم زمان وجوده، فأما مني غيره فلا يصيب ثوبه، فالظاهر أنه منيه فيعتبر وجوده من وقت وجود سبب خروجه …………. ومشايخنا قالوا في البول: يعتبر من آخر ما بال، وفي الدم من آخر ما رعف وفي المني من آخر ما احتلم أو جامع
2۔الدر المختار (1/571) میں ہے:
وعفى الشارع عن قدر درهم وإن كره تحريما، فيجب غسله، وما دونه تنزيها فيسن، وفوقه مبطل فيفرض
حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح (ص:156) میں ہے:
قوله: “وعفي قدر الدرهم” أي عفا الشارع عن ذلك والمراد عفا عن الفساد به وإلا فكراهة التحريم باقية إجماعا إن بلغت الدرهم وتنزيها إن لم تبلغ
مسائل بہشتی زیور (1/131) میں ہے:
اگر نجاست غلیظہ پتلی ہو اور ایک درہم کے پھیلاؤ یعنی پونے تین سم قطر کے پھیلاؤ سے زائد ہو تو نماز نہ ہوگی اگر اس کے برابر یا اس سے کم ہو تو نماز تو ہوجائے گی لیکن بلا کسی مجبوری کے اس کو زائل نہ کرے اور اس کے سمیت نماز پڑھے تو برابری کی صورت میں مکروہ تحریمی ہے اور نماز کا لوٹانا واجب ہے جبکہ کمی کی صورت میں مکروہ تنزیہی ہے۔
عمدۃ الفقہ (1/278) میں ہے:
اگر نجاست غلیظہ قدر درہم سے زیادہ کپڑے یا بدن کو لگ گئی تو نماز جائز نہ ہوگی اور اس کا دھونا فرض ہے اگر درہم کے برابر ہو تو دھونا واجب ہے اگر بے دھوئے نماز پڑھی تو اس کا لوٹانا واجب ہے اور قصداً پڑھی تو گناہ گار بھی ہوا اور اگر درھم سے کم ہو تو پاک کرنا سنت ہے بغیر پاک کیے پڑھی تو نماز ہوگئی مگر خلاف سنت ہوئی اور اس کا لوٹانا بہتر ہے۔
3۔ الدر المختار میں ہے:
من عجز عن استعمال الماء لبعده ميلا او لمرض ………. أو لم يجد من توضه فإن وجد ولو بأجرة مثل وله ذلك لايتيمم فى ظاهر المذهب كما فى البحر
مسائل بہشتی زیور(1/900) میں ہے:
مریض کو مرض کے بڑھ جانے یا صحت کے دیر سے ہونے کا خوف تو نہیں ہے لیکن خود وضو کرنے پر قدرت بھی نہیں تو اگر کوئی خدمت کرنے والا ملے یا دستور کے مطابق اجرت دے کر ملتا ہو اور مریض خدمتگار کو اجرت دے سکتا ہے یا اس کے پاس ایسا شخص ہو کہ اگر اس سے مدد لے گا تو وہ مدد کرے گا تو یہ مریض تیمم نہ کرے اس لئے کہ وہ پانی کے استعمال پر قادر ہے اور اگر ایسی صورت کوئی بھی نہ ہو سکے تو تیمم کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved