• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

قربانی میں ضرورت سے زائد سامان سے کیا مراد ہے؟

استفتاء

قربانی کے نصاب میں ضرورت سے زائد سامان بھی شامل ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ ضرورت سے زائد سامان سے کیا مراد ہے؟

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

ضرورت سے زائد سامان سے مراد وہ  سامان ہے جس کی عام طورپر سال بھر میں استعمال کی ضرورت پیش نہ آتی ہو، نہ گرمی سردی میں، نہ کسی آئے گئے کے موقع پر، نہ غمی خوشی میں، نیز جس چیز کا استعمال شرعاً جائز نہیں مثلاً ٹی وی وہ بھی ضرورت سے زائد سامان میں داخل ہے ،خواہ  وہ استعمال  میں آتا ہو یا نہ آتا ہو اسی طرح سونے چاندی کے زیورات خواہ استعمال میں آتے ہوں ان کی قیمت ہر حال میں معتبر ہوگی۔

الدرالمحتار مع ردالمحتار(6/312)میں ہے:

وشرائطها [أى الاضحية] : الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر)

(قوله: واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضاً يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية، ولو له عقار يستغله فقيل: تلزم لو قيمته نصاباً، وقيل: لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل: قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفاً، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم.

البحر الرائق(8/218)میں ہے:

و باليسار لأنها [الاضحية] لا تجب إلا علی القادر و هو الغنی دون الفقير و مقداره مقدار ما تجب فيه صدقة الفطر

بدائع الصنائع(4/196)میں ہے:

الغنی و هو أن يكون في ملكه مائتا درهم أو عشرون ديناراً أو شيء تبلغ قيمته ذلك سوی مسكنه و ما يتأثث به و كسوته و خادمه و فرسه وسلاحه وما لا يستغنی عنه.

ردالمحتار(3/247،246)میں ہے:

كانوا يعني: الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا؛ لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للإنسان منها.وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف لا يحل وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته؛ ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة، قيل لا تحل، وقيل يحل؛ لأنه يستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم، وقد ادخر – عليه الصلاة والسلام – لنسائه قوت سنة، ولو له كسوة الشتاء وهو لا يحتاج إليها في الصيف يحل ذكر هذه الجملة في الفتاوى.

قلت: وسألت عن ‌المرأة هل تصير غنية بالجهاز الذي تزف به إلى بيت زوجها؟ والذي يظهر مما مر أن ما كان من أثاث المنزل وثياب البدن وأواني الاستعمال مما لا بد لأمثالها منه فهو من الحاجة الأصلية وما زاد على ذلك من الحلي والأواني والأمتعة التي يقصد بها الزينة إذا بلغ نصابا تصير به غنية، ثم رأيت في التتارخانية في باب صدقة الفطر: سئل الحسن بن علي عمن لها جواهر ولآلي تلبسها في الأعياد وتتزين بها للزوج وليست للتجارة هل عليها صدقة الفطر؟ قال: نعم إذا بلغت نصابا.وسئل عنها عمر الحافظ فقال لا يجب عليها شيء.

مطلب في الحوائج الأصلية، وحاصله ثبوت الخلاف في أن الحلي غير النقدين من الحوائج الأصلية، والله تعالى أعلم (قوله: كما جزم به في البحر) حيث قال: ودخل تحت النصاب النامي الخمس من الإبل فإن ملكها أو نصابا من السوائم من أي مال كان لا يجوز دفع الزكاة له سواء كان يساوي مائتي درهم أو لا، وقد صرح به شراح الهداية عند قوله من أي مال كان.

نجم  الفتاوی(3/15،16،17) میں ہے:

سوال: کیا فرماتے ہیں علماء کرام و مفتیانِ عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ حاجت اصلیہ سے زائد سے کیا مراد ہے؟۔۔۔الخ۔

الجواب: ………………. حاجت اصلیہ میں وہ تمام چیزیں شامل ہوں گی جو انسان کے زیر استعمال ہوں ان کی حاجت پڑتی ہو ان کے بغیر تکلیف اور مشقت ہوتی ہو اس میں مکان، کپڑے اور سواری سرفہرست ہیں ۔ کپڑے، مکان اور سواری سے متعلق یہ تفصیل واضح رہے کہ اصل مدار ضرورت پر ہے لہٰذا سال بھرمیں جتنے کپڑے بھی استعمال ہوتے ہوں وہ سب حاجت میں داخل ہیں چاہے وہ بیس سے زائد ہی ہوں۔ البتہ وہ کپڑے جوسال بھر بھی استعمال نہ ہوتے ہوں( جیسے دولہا، دلہن کے بعض کپڑے اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ سالوں استعمال نہیں ہوتے) ان کو حاجت اصلیہ میں شامل نہیں کیا جائے گا۔ نیزسردی گرمی کے الگ الگ کپڑے اور مکان سب حاجت میں شامل ہیں،البتہ لہو و لعب کی چیزیں ٹی وی، وی سی آر، اور لغویات اگرچہ اس کے لیے اہم ہوں لیکن شرعاً محرم ہیں لہٰذا حاجت اصلیہ میں داخل نہیں۔ اگر مکان اور کپڑے استعمال ہی نہ ہوتے ہوں اور سال بھر فالتو پڑے رہتے ہوں یا خالی زمین ہو تو وہ حاجت اصلیہ سے زائد ہیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم               

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved