- فتوی نمبر: 7-165
- تاریخ: 03 دسمبر 2014
- عنوانات: عبادات > قربانی کا بیان
استفتاء
قرآن و حدیث کی روشنی میں درج ذیل مسئلہ میں تفصیل مطلوب ہے:
1۔ ذبح کی شرعی تعریف کیا ہے؟ اور حلال جانور کے ذبح کا شرعی طریقہ کار کیا ہے؟ نیز اس میں کون کون سے امور فرض، واجب، سنت، مستحب اور مکروہ ہیں؟
2۔ حلال جانور کو ذبح کرنے والے کے لیے کیا کیا شرائط ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ ذبح کی شرعی تعریف: حیوان کی ایسے مشروع طریقے سے روح نکالنا جس کے نتیجے میں اس کا گوشت مسلمان کے لیے حلال ہو جائے۔
إزهاق روح الحيوان بالطريق المشروع اللذي يجعل لحمه حلالاً للمسلم. (فقهي مقالات)
2۔ ذبح کا شرعی طریقہ کار : کسی مسلمان یا اہل کتاب کا اللہ تعالیٰ کا نام لے کر حلق اور سینہ کے درمیان گردن کی چار رگوں
(یعنی سانس کی نالی، کھانے کی نالی اور دائیں بائیں دونوں طرف کی شہ رگوں) میں کوئی سی تین کو کاٹنا شرعی ذبح کہلاتا ہے۔
وذكاة الاختيارية ذبح بين الحلق واللبة وعروقه الحلقوم والمري والودجان(عرقان عظيمان في جانبي قدام العنق)وحل المذبوح بقطع أي ثلاث منها. (رد المحتار: 1/ 493)
و أن يكون الذابح مسلماً أو كتابياً.(هندية: 5/ 285)
3۔ ۱۔ذبح کے امور ضروریہ: گردن کی چار رگوں میں سے تین کو کاٹنا ضروری ہے، ورنہ جانور حرام ہو جاءے گا۔ ۲۔ جمہور فقہاء کا مسلک یہ ہے کہ زکاۃ شرعی کے لیے ضروری ہے کہ ذبح کرنے والا ذبح کرتے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لے، لہذا اگر قصداً بسم اللہ چھوڑ دی تو امام ابو حنیفہ، امام مالک، امام احمد بن حنبل اور جمہور فقہاء رحمہم اللہ کے نزدیک اس کا ذبیحہ حلال نہیں ہو گا، لیکن اگر نسیاناً بسم اللہ چھوڑ دی تو امام ابو حنیفہ اور مالکیہ کے نزدیک ذکاۃ شرعی معتبر ہو گی اور جانور حلال ہو گا، حنابلہ کے نزدیک ذکاۃ اختیاری میں نسیان معاف ہے، اور صید کی صورت میں نسیان معاف نہیں ہے۔
اور امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک اگر استخفافاً اور تہاوناً بسم اللہ چھوڑی ہو اور بسم اللہ چھوڑنا ذبح کرنے والے کی عادت ہو تو جانور حرام ہو جائے گا، اور بصورت دیگر بسم اللہ چھوڑنا کراہت سے پھر بھی خالی نہیں، کیونکہ بسم اللہ پڑھنا ان کے نزدیک سنت ہے۔
و حل المذبوح بقطع أي ثلاث منها. (رد المحتار: 9/ 493)
قال جمهور الفقهاء غير الشافعية تشترط التسمية عند الذكية و عند الإرسال في العقر، فلا تحل الذبيحة سواء كانت أضحية أم غيرها في حال ترك التسمية عمداً و كانت ميتة، فلو تركها سهواً أو كان الذابح المسلم أخرس تؤكل …. و تحقيق المذهب عند الحنابلة أن التسمية علی الذبيحة تسقط بالسهو و علی الصيد لا تسقط، و قال الشافعية تسن التسمية و لا تجب و تركها مكروه فلو ترك التسمية عمداً أو سهواً حل الأكل. (الفقه الإسلامي و أدلته: 4/ 394)
(فثبت) أن مذهب الإمام الشافعي ليس علی إطلاق الحل فيما تعمد ترك التسمية عليه، و إنما تحرم الذبيحة عنده إذا ترك عليها التسمية تهاوناً و استخفافاً و جعله الرجل عادة له. (قضايا فقهية معاصرة: 1/ 394)
۳۔ اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ کسی غیر کام نام نہ لینا ضروری ہے۔ ۴۔ آلہ ذبح کا دھار دار ہونا ضروری ہے، کہ وہ آلہ اپنی دھار کی وجہ سے جانور کو کاٹ یا پھاڑ دے نہ کہ اپنے بوجھ، وزن یا رفتار کی وجہ سے۔ ۵۔ بسم اللہ پڑھنے کے بعد مجلس تبدیل کرنے سے پہلے پہلے ذبح کرنا ضروری ہے۔ ۶۔ متعدد جانوروں کی صورت میں ہر ایک پر علیحدہ علیحدہ تسمیہ پڑھنا ضروری ہے۔ ۷۔ جانور کو ذبح کرنے کا قصد کر کے تسمیہ پڑھنا ضروری ہے نہ کہ کسی کام کے شروع کرنے کا قصد سے۔
و منها تجريد اسم الله من غيره و إن كان اسم النبي. (هندية: 5/ 286)
الآلة علی ضربين: قاطعة و فاسخة و القاطعة علی ضربين: حادة و كليلة فالجادة يجوز الذبح بها من غير كراهة حديداً كان أو غير حديد، و الكليلة يجوز الذبح بها و يكره. و أما الآلة الفاسخة فالظفر القائم و السن القائم لا يجوز الذبح بها بالإجماع. (هندية: 5/ 287)
و أما وقت التسمية فوقتها علی الذكاة الاختيارية وقت الذبح، لا يجوز تقديمها عليه إلا بزمان
قليل لا يمكن التحرز عنه. (هندية: 5/ 286)
فلا بد أن يجدد لكل ذبيحة تسمية علی حدة. (هندية: 5/ 286)
و منها أن يريد بها التسمية علی الذبيحة فإن أراد بها التسمية لإفتتاح العمل لا يحل. (أيضاً)
4۔ ذبح کی سنتیں: ۱۔ تیز چھری سے ذبح کرنا، ۲۔ جانور کو لٹانے سے پہلے چھری تیز کرنا، ۳۔ ذبح کرنے والے کا قبلہ رُخ ہونا، ۴۔ حلق کی جانب سے ذبح کرنا۔
و يستحب في الذبح حالة الاختيار أن يكون ذلك بآلة حادة من الحديد. (هندية: 5/ 287)
و يكره أن يضجعها و يحد الشفرة بين يديها. (أيضاً)
و إذا ذبحها بغير توجه القبلة حلت و تكن يكره. (أيضاً)
و يستحب الذبح من قبل الحلقوم. (أيضاً)
5۔ ذبح کے مکروہات: ۱۔ کندھ چھری سے ذبح کرنا، ۲۔ جانور کو لٹانے کے بعد چھری تیز کرنا،۳۔ ذبح کرتے ہوئے قبلہ رُخ نہ ہونا، ۴۔ جانور کے ٹھنڈا ہونے سے پہلے اس کا سر کاٹنا یا کھال اتارنا، ۵۔ گردن کی جانب سے ذبح کرنا۔
و يكره بغير الحديد و بالكليل من الحديد. (أيضاً)
و يكره أن يضجعها و يحد الشفرة بين يديها. (أيضاً)
و إذا ذبحها بغير توجه القبلة حلت و يكن يكره. (أيضاً)
و يكره أن يسلخها قبل أن تبرد و لا يباين الرأس و لو فعل يكره. (أيضاً)
و يكره الذبح من قبل القفا. (أيضاً)
6۔ ذابح کی شرائط: ذبح کرنے والا مسلمان ہو یا اہل کتاب ہو (جو دہریہ نہ ہو) بت پرست، مجوسی اور دہریے کا ذبیحہ حرام ہے۔ اسی طرح قادیانی کا ذبیحہ بھی حرام ہے اور اسی طرح مجنون اور نا سمجھ بچے کا ذبیحہ بھی جائز نہیں۔
و منها أن يكون مسلماً أو كتابياً فلا تؤكل ذبيحة أهل الشرك و المرتد و منها أن يكون عاقلاً فلا تؤكل ذبيحة المجنون و الصبي اللذي لا يعقل. (هندية: 5/ 285) فقط و الله تعالی أعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved