- فتوی نمبر: 7-241
- تاریخ: 14 جنوری 2015
- عنوانات: خاندانی معاملات > وراثت کا بیان > وراثت کے احکام
استفتاء
میرے والد کے پاس ایک عدد مکان ہے، جس میں وہ اور میرے اہل خانہ و بچے وغیرہ بھی رہائش پذیر ہیں، ہم ایک بھائی اور آٹھ بہنیں ہیں، تمام بہنیں شادی شدہ ہیں اور سب اپنے گھروں میں خوش ہیں، ان کی شادی پر کافی سارا جہیز انہیں دیا گیا تھا۔ میرے والد صاحب نے تقریباً دو سال پہلے مکان مذکورہ میرے نام ہبہ کر دیا اور یہ شرط رکھی کہ میں مکان کو بیچ نہیں سکتا، اور اس مکان کو امانتاً اپنے بچوں/ پوتوں کو منتقل کروں گا، لہذا میری حیثیت ایک امانت دار کی ہو گی، اس کے علاوہ میرے والد صاحب نے بتایا کہ میرے پاس تقریباً تیس لاکھ مالیت کے قومی بچت سرٹیفیکیٹ بھی ہیں، جو کہ خدا نخواستہ میرے بعد تمام آپس میں شریعت کے مطابق بانٹ لینا، مکان مذکورہ چونکہ میں نے اپنی زندگی میں ہی ہبہ کر دیا ہے، کسی اور کا اس پر کوئی حق نہ ہو گا۔ کیا اس میرے والد صاحب پر کسی قسم کا روزِ قیامت سوال ہو گا؟ مکان مذکور کے تمام قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے تمام کاغذات بھی میرے نام ٹرانسفر ہو گئے، اور روبرو باقی بہنوں کے زبانی طور پر اقرار بھی میرے حق میں میرے والد صاحب نے کیا، اور کہا کہ مکان مذکور اگر میں بیچوں تو سب کو ان کا حصہ ادا کروں گا، اگر رہائش رکھی تو حصہ نہ ہو گا۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
اپنی زندگی میں جو شخص اپنی جائیداد وغیرہ اپنے ایک بچے کو دے تو اس کے لیے شرعی طریقہ یہ ہے کہ وہ دوسرے کو بھی اتنی ہی جائیداد وغیرہ دے جتنی ایک بچے کو دی ہے، البتہ اس کی بھی گنجائش ہے کہ لڑکوں کو دو حصے اور لڑکی کو ایک حصہ دے، لیکن کچھ کو دینا اور کچھ کو بالکل نہ دینا درست نہیں، خصوصاً جبکہ جن کو نہیں دیا جا رہا وہ مطالبہ بھی کریں، البتہ جن کو نہیں دیا جا رہا وہ سب رضا مند ہوں تو پھر کسی ایک کو بھی دے سکتے ہیں۔
اگر والد آپ کو مکان دینا چاہتے ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ آپ کی بہنوں کو بھی کچھ دے دلا کر راضی کریں۔ فقط و اللہ تعالیٰ اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved