• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

غصے کی حالت میں دی گئی طلاق کا حکم

استفتاء

میرے اور میری  بیگم کے درمیان گھریلو اختلاف پیش آیا اور ہم دونوں میں جھگڑا ہوگیا۔ بات یہ تھی کہ میں اس وقت غصہ میں تھا  مجھے سمجھ نہیں آیا کہ میرے منہ سے کون سے الفاظ ادا ہورہے ہیں اور میرے منہ سے طلاق کے الفاظ ادا ہوگئے اور اس وقت میرا ویسا حال تھا  جیسا ایک شرابی کا ہوتا ہے تو کیا  اسلام اس  طلاق  کو واقع قرار دیتا  ہے اور کیامیری بیوی کو طلاق ہوگئی ہے؟

وضاحت مطلوب  ہے: جھگڑے کے وقت حالت کیا تھی؟ خلاف عادت کوئی کام کیا تھا یا نہیں؟ اور طلاق کے الفاظ کیا تھے؟

جواب وضاحت: خلاف عادت تو کوئی کام نہیں کیا، دماغ بالکل سن تھا ، شدید غصے کی حالت میں تھا اور مجھے یہ سمجھ آرہا تھا کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور کیا کررہا ہوں۔ طلاق کے الفاظ یہ تھے کہ” طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں”

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں  جن کی وجہ سے بیوی شوہر پر حرام ہوچکی ہے لہٰذا اب نہ رجوع ہوسکتا ہے اور نہ صلح کی گنجائش ہے۔

توجیہ:مذکورہ صورت میں اگرچہ شوہر نے  غصہ کی حالت میں طلاق دی ہے  لیکن غصہ کی حالت ایسی نہ تھی کہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا کررہا ہے اور نہ  ہی غصے کی وجہ سے  اس سے کوئی خلاف عادت قول یا فعل سرزد ہوا ہے اور غصہ کی ایسی حالت میں دی گئی طلاق واقع ہوجاتی ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں تینوں طلاقیں واقع ہوچکی ہیں۔

رد المحتار(4/439) میں ہے:

وللحافظ ابن القيم الحنبلي رسالة في طلاق الغضبان قال فيها: إنه على ثلاثة أقسام: أحدها أن يحصل له مبادئ الغضب بحيث لا يتغير عقله ويعلم ما يقول ويقصده، وهذا لا إشكال فيه…………. فالذي ينبغي التعويل عليه في المدهوش ونحوه إناطة الحكم بغلبة الخلل في أقواله وأفعاله الخارجة عن عادته، وكذا يقال فيمن اختل عقله لكبر أو لمرض أو لمصيبة فاجأته: فما دام في حال غلبة الخلل في الأقوال والأفعال لا تعتبر أقواله وإن كان يعلمها ويريدها لأن هذه المعرفة والإرادة غير معتبرة لعدم حصولها عن ادراك صحيح

فتاویٰ عالمگیری(1/473) میں ہے:

إن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو ‌يموت ‌عنها

بدائع الصنائع (3/295) میں ہے:

وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو زوال الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل {فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: ٢٣٠] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة.مسائل بہشتی زیور (2/103) میں ہے:

اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو وہ عورت اس مرد کے لیے حرام ہو گئی تین طلاقیں ایک دم سے دے دیں، جیسے یوں کہہ دیا: ’’تجھ کوتین طلاق‘‘ یا یوں کہا :’’ تجھ کو طلاق ہے، طلاق ہے، طلاق ہے‘‘ یا الگ کر کے تین طلاقیں دیں ……… سب کا ایک ہی حکم ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved