- فتوی نمبر: 32-37
- تاریخ: 26 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > نکاح کا بیان > حضانت اور پرورش کا بیان
استفتاء
اگر بیوی عدالت سے خلع لے رہی ہو تو ایسی صورت میں ساڑھے چار سال کی بیٹی کے بارے میں شرعی کیا حکم ہو گا؟ ابھی شوہر خلع دینے کے لیے راضی نہیں مگر پھر بھی شریعت کے مطابق چند سوالوں کے جواب درکار ہیں۔
1۔ اگر میاں بیوی الگ ہو جائیں توبیٹی کس کے پاس رہے گی اور کتنے عرصے تک رہے گی؟
2۔ بیٹی کی شادی اور پڑھائی والدین میں سے کس کی مرضی کے مطابق ہو گی اور دینی یا دنیاوی تعلیم کتنی لازمی دینی ہو گی؟
3۔ اگر بیوی کی طرف سے یہ مطالبہ ہو کہ خلع کے بعد وہ الگ مکان میں رہے گی اور اس مکان میں چونکہ تمہاری بیٹی بھی رہے گی تو اس لیے مکان کا کرایہ تم دو تو کیا یہ مطالبہ جائز ہے یا نہیں ؟
4۔ اگر عورت خلع کے بعد دوبارہ شادی کرے گی تو بیٹی کس کے پاس رہے گی؟ اگر بچی کی نانی خود بیمار ہو تو پھر بچی کس کے پاس رہے گی؟
5- بیٹی کا نان نفقہ کس حیثیت سے طے ہو گا؟
برائے مہربانی شریعت کے مطابق آگاہ فرما دیں تاکہ جواب عورت اور عدالت کو دکھایا جا سکے۔
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔اگر میاں بیوی میں طلاق یا خلع ہوجائے تو شرعاً عام حالات میں بیٹی ماں کے پاس رہے گی اور چاند کے لحاظ سے 9 سال تک رہے گی۔
الدر المختار (3/566) میں ہے:
(والحاضنة) أما أو غيرها (أحق به) أي بالغلام حتى يستغني عن النساء وقدر بسبع وبه يفتى لانه الغالب (والام والجدة) لام أو لاب (أحق بها) بالصغيرة (حتى تحيض) أي تبلغ في ظاهر الرواية.ولو اختلفا في حيضها فالقول للام
وأقول: ينبغي أن يحكم سنها ويعمل بالغالب (وغيرهما أحق بها حتى تشتهي) وقدر بتسع، وبه يفتى
النہر الفائق (2/502) میں ہے:
(والأم والجدة) ………… من له حق الحضانة بالغلام (حتى يستغني) عن النساء لاحتياجه إذ ذاك إلى الأدب والرجال على ذلك أقدر.(وقدر بسبع) أي: قدر الخصاف بذلك قالوا: وعليه الفتوى (وغيرهما) أي: الأم والجدة من قبل الأم والأب (احق بها) أي: الجارية (حتى تشتهى) بأن تبلغ تسع سنين (و) نحوهما أحق (بها) أي: بالجارية (حتى تحيض) لأنها بعد الاستغناء تحتاج إلى معرفة أدب النساء والأم أقدر على ذلك فإذا حاضت احتاجت إلى التزوج والصيانة وللأب ولاية ذلك وهذا هو ظاهر الرواية
أقول: ينبغي أن ينظر إلى سنها فإن بلغت سنًا تحيض فيه الأنثى غالبًا فالقول له وإلا لها، وعن محمد أنها إذا بلغت حد الشهوة فالأب أحق بها، قال صدر الشريعة: وهو المعتبر لفساد الزمان، وعزاه الخصاف إلى الثاني، قال الشارح: وبه يفتى، وفي (الخلاصة) وعليه الاعتماد والفتوى على تقدير حد الشهوة بتسع سنين
2۔بالغ ہونے کے بعد بیٹی کی شادی میں اصل مرضی بیٹی کی اپنی ہوگی تاہم اسے چاہیے کہ وہ اپنے فیملی ممبران کی سرپرستی میں شادی کرے خواہ وہ باپ ہو یا ماں ہو یا چچا ، تایا، ماموں وغیرہ ہوں۔
پڑھائی کےبارے میں تفصیل یہ ہے کہ والدین میں سے جس کا دینی ذہن دوسرے کی بنسبت زیادہ ہو پڑھائی اس کی مرضی کے مطابق ہوگی خواہ وہ باپ ہو یا ماں ہو۔ دنیاوی تعلیم بقدرت ضرورت مثلاً میٹرک تک دینا جائز ہے تاہم ضروری اور لازم نہیں۔ اور دینی تعلیم کسی حد تک بھی دی جاسکتی ہے تاہم ضروری حد یہ ہے کہ نماز، روزہ وغیرہ میں سے لڑکی کے اپنے متعلق جو فرائض وواجبات ہیں ان کی تعلیم دینا فرض اور واجب ہے۔
شامی(3/55) میں ہے:
(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والاصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه، وما لا فلا
بدائع الصنائع(2/247) میں ہے:
وأما ولاية الندب والاستحباب فهي: الولاية على الحرة البالغة العاقلة بكرا كانت أو ثيبا في قول أبي حنيفة وزفر ……… وعلى هذا يبنى الحرة البالغة العاقلة إذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض
مؤطا امام مالک (رقم الحدیث:542) میں ہے:
قال: قال عمر بن الخطاب: «لا يصلح لامرأة أن تنكح إلا بإذن وليها، أو ذي الرأي من أهلها، أو السلطان» ، قال محمد: لا نكاح إلا بولي، فإن تشاجرت هي والولي فالسلطان ولي من لا ولي له، فأما أبو حنيفة، فقال: إذا وضعت نفسها في كفاءة ولم تقصر في نفسها في صداق، فالنكاح جائز، ومن حجته قول عمر في هذا الحديث: أو ذي الرأي من أهلها، إنه ليس بولي، وقد أجاز نكاحه لأنه إنما أراد أن لا تقصر بنفسها فإذا فعلت هي ذلك جاز
ردالمحتار(1/42) میں ہے:
واعلم أن تعلم العلم يكون فرض عين، وهو بقدر ما يحتاج لدينه. وفرض كفاية، وهو ما زاد عليه لنفع غيره
وفيه ايضا: وفي القنية: له إكراه طفله على تعلم قرآن وأدب وعلم، لفريضته على الوالدين، وله ضرب اليتيم فيما يضرب ولده
ہندیہ(5/377) میں ہے:
طلب العلم فريضة بقدر الشرائع وما يحتاج إليه لأمر لا بد منه من أحكام الوضوء والصلاة وسائر الشرائع ولأمور معاشه وما وراء ذلك ليس بفرض فإن تعلمها فهو أفضل وإن تركها فلا إثم عليه كذا في السراجية
دررالحکام شرح غرر الاحکام(1/337) میں ہے:
فإن طلب العلم فريضة على كل مسلم ومسلمة، وأما الصبي والصبية إذا راهقا يجب عليهما تعلم الإيمان وأحكامه أو وجب على وليهما التعليم ولا ينبغي أن يتركا سدى قال – عليه الصلاة والسلام – «مروا صبيانكم بالصلاة إذا بلغوا سبعا واضربوهم إذا بلغوا عشرا»
فضائل اعمال (377) میں ہے:
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنی اولاد کو اس سے افضل عطیہ نہیں دے سکتا کہ اس کو اچھا طریقہ تعلیم دے۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل(7/149) میں ہے:
سوال: اگر کوئی طالبعلم دینی تعلیم کے علاوہ دنیاوی تعلیم مثلا اانجینئرنگ ، میڈیکل وغیرہ حاصل کرے کیا شرعی لحاظ سے یہ جائز ہے یا ناجائز؟
جواب: اگر دین کا نقصان نہ ہو تو جائز ہے۔
سوال: کیا باپ پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ لڑکوں کو اچھی تعلیم وتربیت دے کر ان کی شادیوں تک کفالت کرے؟
جواب: اچھی تعلیم وتربیت سے مراد اگر دینی تعلیم ہے تو واقعی باپ کے ذمہ ہے اور دنیوی تعلیم دلانا باپ کے ذمہ نہیں۔
3۔اگر الگ مکان میں رہنا مجبوری ہو تو اس کے کرائے کا مطالبہ جائز ہے۔
شامی(3/561) میں ہے:
«وفي شرح النقاية للباقاني عن البحر المحيط: سئل أبو حفص عمن لها إمساك الولد وليس لها مسكن مع الولد فقال: على الاب سكناهما جميعا؟»
شامی(3/562) میں ہے:
وقال نجم الأئمة: المختار أن عليه السكنى) في نفقات البحر عن التفاريق: لا تجب في الحضانة أجرة المسكن. وقال آخرون: تجب إن كان للصبي مال وإلا فعلى من تجب عليه نفقته ………… والحاصل أن الأوجه لزومه لما قلنا، لكن هذا إنما يظهر لو لم يكن لها مسكن، أما لو كان لها مسكن يمكنها أن تحضن فيه الولد ويسكن تبعا لها فلا لعدم احتياجه إليه، فينبغي أن يكون ذلك توفيقا بين القولين، ويشير إليه قول أبي حفص وليس لها مسكن. ولا يخفى أن هذا هو الأرفق للجانبين فليكن عليه العمل.
4۔خلع کے بعد اگر عورت بچی کے غیر محرم سے شادی کرتی ہے تو بچی نانی کے پاس رہے گی ورنہ عورت کے پاس ہی رہے گی اور اگر نانی بچی کی دیکھ بھال سے قاصر ہو تو بچی اپنی دادی کے پاس رہے گی۔
الدر المختار مع ردالمحتار(3/555) میں ہے:
(تثبت للام) النسبية (ولو) كتابية أو مجوسية أو (بعد الفرقة إلا أن تكون مرتدة) فحتى تسلم لانها تحبس (أو فاجرة) فجورا يضيع الولد به ……….. (أو غير مأمونة)……(ثم) بعد الام بأن ماتت أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الام) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الاب وإن علت) (ثم الاخت لاب وأم، ثم لام)
الدر المختار مع ردالمحتار(3/555) میں ہے:
(تثبت للام)….. (ولو) كتابية أو مجوسية أو (بعد الفرقة إلا أن تكون مرتدة) ……(أو فاجرة)……….. (أو غير مأمونة)…… (أو متزوجة بغير محرم) الصغير (أو أبت أن تربيه مجانا و) الحال أن (الاب معسر والعمة تقبل ذلك) أي تربيته مجانا ولا تمنعه عن الام، قيل للام إما أن تمسكيه مجانا أو تدفعيه للعمة (على المذهب).
5۔باپ کی مالداری کی حیثیت سے طے ہوگا۔
شامی (3/561) میں ہے:
قال في البحر: فعلى هذا يجب على الأب ثلاثة: أجرة الرضاع، وأجرة الحضانة، ونفقة الولد
خیر الفتاویٰ (6/114) میں ہے:
سوال: طلاق کے بعد بچے کا خرچ باپ کے ذمہ کتنے عرصہ تک ہے جبکہ بچے کا خرچ ایک ہزا ر روپے ہے۔
جواب: جب تک بچہ ماں کی پرورش میں ہے اس کا خرچہ باپ پر لازم ہے لیکن خرچہ کی کوئی حد نہیں باپ کی حیثیت کے مطابق ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved