- فتوی نمبر: 32-38
- تاریخ: 26 مارچ 2025
- عنوانات: خاندانی معاملات > ہبہ و ہدیہ
استفتاء
میری کچھ جائیداد وغیرہ ہے جسے میں اپنی زندگی میں ہی اپنے ورثا ء کے مابین تقسیم کرنا چاہتا ہوں میرے ورثا میں دو بیٹے دو بیٹیاں اور ایک بیوی ہے مجھے درج ذیل امور میں شرعی رہنمائی درکار ہے ۔
1۔میں اپنے لیے اور اپنی بیوی کے لیے کتنا حصہ رکھوں؟
2۔ جائیداد کو اولاد کے درمیان وراثت کی طور پر تقسیم کروں یا سب کو برابر دوں؟
3۔ اگر وراثت کے طور پر تقسیم کروں تو کیا جو شرعی وراثت ہوتی ہے جس میں ایک سوئی کا بھی حساب رکھنا ہوتا ہے یہ تقسیم بھی اسی طرح ہوگی یا اس میں کچھ کمی زیادتی کی گنجائش ہے؟
4۔اگر وراثت کے طور پر نہ کروں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ میں دونوں بیٹوں کو بیٹیوں سے زیادہ دوں کیونکہ ایک بیٹا تقریبا 15 سال سے میرے ساتھ کاروبار میں شامل ہے اور کاروبار کے سارے معاملات کی دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ دوسرا بیٹا طالب علم ہے درس نظامی کر رہا ہے۔
5۔ ان دونوں بیٹوں کو برابر دوں یا ان میں سے بھی کسی ایک کو دوسرے سے زیادہ دوں ؟
6۔میں اپنے لیے آپ کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق جو حصہ رکھوں گا اس کے متعلق میری یہ خواہش اور نیت ہے کہ وہ زندگی میں میری ملکیت اور میرے استعمال میں رہے اور میرے مرنے کے بعد میری وراثت نہ بنے بلکہ میرے لیے صدقہ جاریہ بن جائے تو اس کی کیا صورت بن سکتی ہے ؟
7۔اگر میں اپنے حصہ کی جائیداد وقف کرتا ہوں تو کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ بعد میں اس وقف کو ختم کر دوں یا اس کی جہت تبدیل کر دوں یا اس کو بیچ کر ان پیسوں سے کوئی دوسری جائیداد لے کر اسے وقف کر دوں ؟
8۔اگر میں وقف مطلق کرتا ہوں اور اس کا کوئی مصرف متعین نہیں کرتا تو کیا یہ وقف ہو جائے گا اگر ہو جائے گا تو پھر اس کو کس مصرف میں استعمال کیا جائے اور کیا مطلق وقف کو جس مصرف میں استعمال کریں گے تو کیا پوری زندگی وہی مصرف رہے گا یا بعد میں تبدیل ہو سکتا ہے؟ مثلا اگر میں زمین کسی مصرف کی تعین کے بغیر وقف کرتا ہوں پھر بعد میں اس جگہ مدرسہ بنتا ہے تو اب کیا ساری زندگی یہ جگہ مدرسہ رہے گا یا اسے تبدیل کر کے مسجد یا ہسپتال وغیرہ بنا سکتے ہیں؟
الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً
1۔ آپ اپنے لیے اور اپنی بیوی کے لیے جتنا حصہ رکھناچاہیں رکھ سکتے ہیں تاہم بہتر یہ ہے کہ بیوی کے لیے آٹھواں حصہ رکھیں یعنی یہ حصہ انہیں اپنی زندگی میں ہی دے دیں۔
2۔برابر تقسیم کرنا افضل اور بہتر ہے باقی وراثت کے طور پر بھی تقسیم کر سکتے ہیں۔
3۔جو گھر آپ تقسیم کرنا چاہتے ہیں اس میں تو یہی اصول جاری ہوگا البتہ کسی کو تھوڑا بہت زیادہ دینے کی کوئی خاص وجہ (دینی یا دنیاوی) ہو تو تھوڑی بہت کمی زیادتی کی بھی گنجائش ہے۔
4۔ہو سکتا ہے تاہم بہت زیادہ کمی بیشی نہ ہو کہ دوسروں کے لیے قابل اعتراض ہو بلکہ ان کی محنت اور ضرورت کو سامنے رکھتے ہوئے ایک معقول حد تک ہو۔
5۔نمبر چار کے مطابق کم زیادہ دے سکتے ہیں۔
6۔اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اسے آپ اپنی زندگی میں کسی کار خیر مثلا مسجد یا مدرسے کے لیے وقف کر دیں اور وقف کرتے وقت یہ شرط لگا لیں کہ جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک میں خود اس سے فائدہ اٹھاؤں گا۔
7۔وقف کرنے کے بعد وقف کو ختم نہیں کیا جا سکتا البتہ اگر وقف کرتے وقت ہی اسے تبدیل کرنے یا اسے فروخت کر کے حاصل شدہ رقم سے کوئی دوسری جائیداد خرید کر وقف کرنے کی شرط لگا لیں اور اس کے گواہ بھی بنا لیں تو وقف تبدیل ہو سکتا ہے ورنہ تبدیل بھی نہیں ہو سکتا۔
8۔وقف مطلق نہیں ہو سکتا بلکہ اس کا کوئی مصرف متعین کرنا ضروری ہے اور متعین کرنے کے بعد اسے تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔
مشكاة المصابيح (رقم الحدیث: 3019) میں ہے:
وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه»
ردالمحتار (5/696) میں ہے:
وفي الخانية: لا بأس بتفضيل بعض الاولاد في المحبة لانها عمل القلب، وكذا في العطايا إن لم يقصد به الاضرار، وإن قصده فسوى بينهم يعطي البنت كالابن عند الثاني، وعليه الفتوى.ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز وأثم
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (6/ 264) میں ہے:
«للمالك أن يتصرف في ملكه أي تصرف شاء»
ہندیہ(4/ 391) میں ہے:
«ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف – رحمه الله تعالى – أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى»
شامی (5/ 696) میں ہے:
«قوله وعليه الفتوى) أي على قول أبي يوسف: من أن التنصيف بين الذكر والأنثى أفضل من التثليث الذي هو قول محمد رملي»
کفایت المفتی(8/170) میں ہے:
سوال: زید اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کے حصے بانٹنا چاہتا ہے4 لڑکے ، 4 لڑکیاں میں کس طرح حصے تقسیم کرے؟
جواب: بہتر یہ ہے کہ زید اپنی جائیداد کے 8 حصے کرکے ہر ایک لڑکے اور لڑکی کو ایک حصہ دیدے اور ہر ایک کو قبضہ بھی دیدے۔
احسن الفتاویٰ(9/310) میں ہے:
سوال: زید نے اپنی زندگی میں تمام مال وجائیداد اپنی اولاد میں شرعی حصص کے مطابق تقسیم کر دی تو زید کی زوجہ کے لیے کیا حکم ہے؟ وہ کون سے مکان میں سکونت اختیار کرے گی جبکہ مکان اولاد کے حصے میں جائے گا۔
جواب: اگر بیوی کو کچھ نہ دیا تو گنہگار ہوگا نیز زندگی میں وراثت کی تقسیم نہیں ہوتی بلکہ یہ ہبہ ہے اور اولاد کو کم و بیش شفا کرنے میں تفصیل ہے:
1۔ اگر دوسروں کا اضرارمقصود ہو تو مکروہ تحریمی ہے ۔
2۔اگر اضرار مقصود نہ ہو اور کوئی وجہ ترجیح بھی نہ ہو تو مکروہ تنزیہی ہے۔ذکور واناث میں تسویہ مستحب ہے ۔
3۔ دینداری ،خدمت گزاری، خدمات دینیہ کا شغل یا احتیاج وغیرہ وجوہ کی بنا ء پر تفاضل مستحب ہے۔
4۔بے دین اولاد کو بقدر قوت سے زیادہ نہیں دینا چاہیے ان کو محروم کرنا اور زائد مال امور دینیہ میں صرف کرنا مستحب ہے۔
ہندیہ(2/ 398) میں ہے:
ولو قال: وقفت على نفسي ثم من بعدي على فلان ثم على الفقراء جاز عند أبي يوسف – رحمه الله تعالى……. في الذخيرة إذا وقف أرضا أو شيئا آخر وشرط الكل لنفسه أو شرط البعض لنفسه ما دام حيا وبعده للفقراء ………. قال أبو يوسف – رحمه الله تعالى -: الوقف صحيح ومشايخ بلخ رحمهم الله تعالى أخذوا بقول أبي يوسف – رحمه الله تعالى – وعليه الفتوى ترغيبا للناس في الوقف……….ولو قال: أرضي هذه صدقة موقوفة تجري غلتها على ما عشت ثم بعدي على ولدي وولد ولدي من نسلهم أبدا ما تناسلوا فإن انقرضوا فهي على المساكين. جاز ذلك»
الفقہ الاسلامی وادلتہ(10/7612) میں ہے:
إذا صح الوقف خرج عن ملك الواقف، وصار حبيساً على حكم ملك الله تعالى، ولم يدخل في ملك الموقوف عليه، بدليل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالك الأول) كسائر أملاكه.وإذا صح الوقف لم يجز بيعه ولا تمليكه ولا قسمته
فتح القدیر (6/203) میں ہے:
وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى فيزول ملك الواقف عنه إلى الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث»
الدر المختار(4/338) میں ہے:
(وعندهما هو حبسها على) حكم (ملك الله تعالى وصرف منفعتها على من أحب) ولو غنيا فيلزم، فلا يجوز له إبطاله ولا يورث عنه، وعليه الفتوى
وفي الشامية: (قوله على حكم ملك الله تعالى) قدر لفظ حكم ليفيد أن المراد أنه لم يبق على ملك الواقف ولا انتقل إلى ملك غيره، بل صار على حكم ملك الله تعالى الذي لا ملك فيه لأحد سواه، وإلا فالكل ملك لله تعالى
رد المحتار (4/ 340) میں ہے:
«(وركنه الألفاظ الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف»
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم
© Copyright 2024, All Rights Reserved