• جامعة دارالتقوی لاہور، پاکستان
  • دارالافتاء اوقات : ٹیلی فون صبح 08:00 تا عشاء / بالمشافہ و واٹس ایپ 08:00 تا عصر
  • رابطہ: 3082-411-300 (92)+
  • ای میل دارالافتاء:

زندگی میں ہبہ کرنا

استفتاء

  1. اگر دادا اپنے پوتے اور پوتیوں کو اپنی زندگی میں کچھ ہبہ کرے تو کیا وہ کر سکتا ہے؟ اور دادا کے دنیا سے جانے کے بعد وہ ہبہ ٹوٹے گا کہ نہیں؟
  2. اور گھر لینا چاہیں تو جیٹھ اور بیوہ مل کر گھر لے سکتے ہیں؟ کیا یہ شرعا جائز ہے کہ نہیں ؟جیٹھ اور بیوہ کے نام گھر ہو سکتا ہے کہ نہیں؟

تنقیح: سائل  زید  کی بیٹی کی شادی  بکر کے ساتھ ہوئی تھی ان کے آگے بچے ہوئے،  بکر  فوت ہو گیا ، بکر کا ایک بھائی خالد بھی ہے۔ بنت  زید  اور ان کے بچے اور  خالد ایک دس مرلے کے گھر میں رہتے ہیں جو کہ  خالد اور  بکر کے والد عمرو صاحب کے نام ہے، عمرو  صاحب یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس گھر کو اپنی زندگی میں ہی  خالد اور  بکر کے بچوں کے نام کر دیں۔

سائل کے دونوں سوال دراصل ایک ہی گھر سے متعلق ہیں۔ عمرو  صاحب آدھا گھر  خالد کے نام کرنا چاہتے ہیں اور بقیہ آدھے سے متعلق سوال ہے کہ آیا وہ اپنی بہو یعنی بنت  زید کے نام کر سکتے ہیں یا پھر اپنے پوتے پوتیوں کے نام بچوں کی عمر 14، 11، 8 ہے ۔عمرو    فی الحال اسی گھر میں رہتے ہیں۔

الجواب :بسم اللہ حامداًومصلیاً

مذکورہ صورت میں دادا اپنی بہو اور پوتے پوتیوں میں سے جس کو چاہے گھر ہدیہ کر سکتا ہے۔ باقی کس کو ہدیہ کرنے میں زیادہ مصلحت ہے وہ خود دیکھ لے ۔نیز ہدیہ کرنے والے کے دنیا سے جانے کے بعد ہدیہ شرعاً تو نہیں ٹوٹتا البتہ قانوناً ٹوٹ جاتا ہو تو اس کا ہمیں علم نہیں ہے۔

ہدیہ کرنے کی صورت یہ ہوگی کہ دادا گھر میں اپنا موجود سامان بہو یا بیٹے یعنی جس کو وہ مکان ہدیہ کرنا چاہتا ہے اس کے پاس امانت رکھوا دے پھر گھر کی تقسیم کروا کر ہر ایک کو ان کا حصہ ہدیہ کردے۔

تو جیہ: ہدیہ کے فسخ ہونے کی صرف ایک صورت ہے کہ ہدیہ کرنے والا خود ہدیہ سے رجوع کر لے لیکن اس کے مرنے کے بعد یہ احتمال ختم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر ہدیہ کرنے والا مکان میں موجود اپنا سارا سامان جس کو ہدیہ کیا ہے پہلے اس کے پاس امانت کے طور پر رکھ دے پھر اس کو مکان ہدیہ کر دے تو جائز ہے۔

شامی(8/439) میں ہے:

‌ويمنع ‌الرجوع فيها دمع خزقه …… والميم موت أحد العاقدين ……… ‌وأما ‌إذا ‌مات ‌الواهب، فلأن النص لم يوجب حق الرجوع إلا للواهب، والوارث ليس بواهب

ہدایہ(3/409) میں ہے:

وإذا ‌وهب ‌هبة ‌لأجنبي فله الرجوع فيها……. الا ان ……. يموت احد  المتعاقدين….. واذا مات الواهب فوارثه اجنبى عن العقد اذ هو ما اوجبه

ہندیہ (4/380) میں ہے:

‌ولو ‌وهب ‌دارا ‌فيها متاع الواهب وسلم الدار إليه أو سلمها مع المتاع لم تصح والحيلة فيه أن يودع المتاع أولا عند الموهوب له ويخلي بينه وبينه ثم يسلم الدار إليه فتصح الهبة فيها

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فقط واللہ تعالی اعلم

Share This:

© Copyright 2024, All Rights Reserved